9مئی کے مجرموں کو سزائیں
سانحہ 9 مئی میں ملوث 25 ملزموں کو فوجی عدالت سے سزائیں سنادی گئی ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے پہلے مرحلے میں 25 ملزموں کو سزائیں سنائی ہیں‘ تمام سزا یافتہ مجرموں کے پاس آئین اور قانون کے مطابق اپیل اور دیگر قانونی چارہ جوئی کا حق ہے۔ قبل ازیں 13 دسمبر کو سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو 9 مئی کے واقعات میں ملوث 85 ملزمان کے خلاف کیسوں کا فیصلے سنانے کی اجازت دیتے ہوئے قرار دیا تھا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمہ کے فیصلے سے مشروط ہوں گے‘ جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنا کر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔ گزشتہ سال 9 اور 10 مئی کو پیش آئے پُرتشدد واقعات ملکی تاریخ میں ایک سیاہ باب کی حیثیت رکھتے ہیں جب سیاسی احتجاج کی آڑ میں اہم قومی ودفاعی تنصیبات پر حملے کیے گئے اور جلاؤ گھیراؤ کے اشتعال انگیز‘ اور پُرتشدد واقعات دیکھنے کو ملے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے اس کیس میں ملوث ملزموں کو سزائیں دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے مگر بعض قانونی موشگافیوں کی وجہ سے اس پر لیت و لعل سے کام لیا جا رہا۔ مختلف مواقع پر عسکری قیادت کی جانب سے بھی ان مقدمات کو سست روی سے چلانے پر تحفظات سامنے آئے اور ملزمان کو جلد سزائیں سنانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اب فوجی عدالتوں نے 9 مئی سے متعلق کیسوں میں سزائیں سنا کر نہ صرف رد الفساد کے حوالے سے اپنا عزم ظاہر کر دیا ہے بلکہ اُن تمام لوگوں کو ایک واضح پیغام بھی دیا ہے جو چند مفاد پرستوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہو کر اور سیاسی پروپیگنڈے اور جھوٹے بیانیے کے سبب قانون کو ہاتھ میں لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اس فیصلے سے مستقبل میں بھی ایسے پُرتشدد اور فتنہ انگیز واقعات کا دفیعہ کرنے میں مدد ملے گی۔ ترجمان پاک فوج کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ صحیح معنوں میں مکمل انصاف اُس وقت ہوگا جب 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو آئین وقانون کے مطابق سزا ملے گی۔ اس فیصلے نے ریاست و حکومت میں ایک واضح حدِ فاصل قائم کر دی ہے کہ حکومت کے خلاف احتجاج میں ریاستی مفاد کو نقصان پہنچانا ایک سنگین جرم ہے جسے کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا۔ حالیہ عرصے میں معاصر دنیا سے پُرتشدد احتجاج اور انتشار میں ملوث افراد کو سخت سزائیں سنانے کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ امریکہ نے جنوری 2021ء میں کیپٹل ہل پر حملے‘ فرانس نے گزشتہ سال جون‘ جولائی میں ملک بھر میں ہوئے فسادات اور برطانیہ نے رواں سال جولائی میں ہوئے لندن فسادات کے ملزموں کو نہ صرف کم ترین وقت میں سخت سزائیں سنائیں بلکہ قانون کو مزید سخت کرنے کے علاوہ سماجی میڈیا سے متعلق نئے قوانین کا نفاذ بھی کیا‘ جنہوں نے ان فسادات کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ہمارے ہاں بھی نو مئی کے واقعات میں بنیادی کردار سوشل میڈیا کا تھا جس نے ملک بھر میں ہیجان اور تشدد کو فروغ دیا۔ فوجی عدالتوں کا فیصلہ ہمارے قانونی و عدالتی نظام کی خامیوں کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اب تک اکثر انڈر ٹرائل قیدیوں پر فردِ جرم ہی عائد نہیں ہو سکی‘ 19 ماہ بعد بھی اس سانحے میں ملوث مجرموں کو سزا نہ ہو پانا مروجہ نظامِ انصاف کی سست روی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس حوالے سے ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام رکاوٹیں اور سقم دور کر کے ان کیسوں کو فاسٹ ٹریک چلائے۔ پُرتشدد واقعات کے ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا قومی سلامتی کا بنیادی تقاضا ہے اور مستقبل میں ایسے واقعات کے اندیشے کو صرف اسی صورت دور کیا جا سکتا ہے جب کسی نرمی ورعایت کے بغیر تمام ملوث افراد کو سخت اور کڑی سزا دی جائے۔