پاکستان کا حقِ دفاع
جنوبی وزیرستان میں فتنہ الخوارج کے خلاف سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں گزشتہ روز 13خارجی دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق علاقے میں خوارج کے خاتمے کیلئے کلیئرنس آپریشن کیا جا رہا ہے ۔ دہشت گردوں کے خلاف مذکورہ آپریشن جنوبی وزیرستان کے علاقے سراروغہ میں انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیاد پرکیا گیا۔ چار روز قبل اسی علاقے میں ایک چیک پوسٹ پر خوارج کے حملے میں 16 اہلکار شہید ہو گئے تھے ۔ کلیئرنس آپریشن کے تحت فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی آئی ہے اور اس کا سبب ہے سرحد پار سے دہشت گردوں کی دراندازی اور پاکستان میں ان کے بڑھتے ہوئے حملے۔ قبل ازیں 21دسمبر کو ضلع خیبر کے علاقے راجگال میں پاک افغان سرحد پر فتنہ الخوارج نے دراندازی کی کوشش کی تھی جسے پاک فوج کے مستعد اہلکاروں نے ناکام بنا کر چار خارجی دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ حالیہ عرصے میں پاکستان میں دہشت گردی میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور 2015ء کے بعد‘ رواں سال کو سب سے خونیں سال کہا جا رہا ہے جس میں اب تک 576 شہری اور 717 سکیورٹی اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ نومبر سب سے ہلاکت خیز مہینہ رہا جس میں دہشت گردی کے 61حملوں میں 107 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 213افراد شہید ہوئے۔ دہشت گردی سے صوبہ خیبر پختونخوا سب سے زیادہ متاثر رہا جہاں وزارتِ داخلہ کی رپورٹ کے مطابق جنوری تا اکتوبر‘ دس ماہ کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں 437سکیورٹی اہلکاروں سمیت 583افراد شہید اور 1375زخمی ہوئے۔ یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ شمال مغربی صوبے میں بدامنی کی ایک بڑی وجہ اس کا محلِ وقوع ہے۔ افغانستان کی ہمسائیگی خیبر پختونخواسمیت ملک بھر کیلئے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے۔ پاکستان افغان عبوری حکومت سے مؤثر بارڈر مینجمنٹ کا مسلسل تقاضا کرتا آ رہا ہے مگر افغان حکام کی جانب سے پاکستان کے خدشات کو دور کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آ رہی‘ حالانکہ یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ فتنہ الخوارج کی کمین گاہیں افغانستان میں ہیں اور چند روز قبل خارجی کمانڈر رحیم اللہ عرف شاہد عمر کی افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ہلاکت پاکستان دشمنوں کی افغانستان میں موجودگی کا ایک بڑا ثبوت ہے۔ علاوہ ازیں دہشت گردوں سے برآمد ہونے والا امریکی فوج کا چھوڑا گیا اسلحہ اور عسکری آلات شاہد ہیں کہ دہشتگردوں کی سہولت کاری کہاں سے ہو رہی ہے۔ پاکستان متعدد بار یہ باور کرا چکا کہ اگر افغان طالبان فتنہ الخوارج کے دہشتگردوں کی سہولت کاری اور پناہ دینے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں تو پاکستان اپنی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کیلئے فیصلہ کن اقدامات‘ بشمول سرحد پار کارروائیاں کرنے کا اصولی حق رکھتا ہے۔ رواں برس مارچ میں پاکستانی طیاروں نے پکتیکا اور خوست میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کو ہدف بنایا تھا جبکہ جولائی میں وزیر دفاع نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ اگر داخلی سلامتی یقینی بنانے کیلئے افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا پڑا تو دریغ نہیں کیا جائے گا۔ افغان سرحدی علاقوں میں دہشتگرد گروپوں کی موجودگی اچھی ہمسائیگی اور پُراعتماد باہمی تعلقات کے منافی ہے۔ پاکستان نے ہر موقع پر افغانستان کے مفادات کا خیال رکھا ہے اور طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھی‘ پہلا ملک پاکستان ہی تھا جس نے اسلام آباد میں ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کر کے افغانستان کے مسائل کو اجاگر کیا‘ مگر اسکے باوجود افغان حکام کی جانب سے پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث عناصر سے صرفِ نظر نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو متاثر کرنے بلکہ پورے خطے میں عدم استحکام کا بھی باعث بن رہا ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کو اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پہچاننے کی ضرورت ہے۔