پولیو کا چیلنج
سال 2025ء کی پہلی انسدادِ پولیو مہم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ مربوط حکمت عملی اور مشترکہ کاوشوں سے پولیو کا خاتمہ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔پاکستان اور افغانستان ہی دنیا میں دو ایسے ملک ہیں جہاں زندگی بھر کیلئے اپاہج کر دینے والے اس مرض پر ابھی تک قابو نہیں پایا جاسکا۔پاکستان میں 1994ء سے حکومتی سطح پر انسدادِ پولیو کی جدوجہد جاری ہے مگر ابھی تک پولیو کے خاتمے میں کامیابی نہیں مل سکی۔ گزشتہ برس 77 کیسز رپورٹ ہوئے‘ اس سے ایک برس پہلے ملک میں نئے پولیو کیسز کی تعداد چھ تھی جبکہ 2022ء میں 20‘ 2021ء میں ایک‘ 2020ء میں 84 اور 2019ء میں 147 پولیو کیسز رپورٹ ہوئے۔ پولیو کے حوالے سے یہ گمبھیر صورتحال ہے اور اس اعتبار سے بڑی تشویش کا باعث کہ ملک میں انسدادِ پولیو کی مسلسل مہمات جو سال میں کئی بار شروع ہوتی ہیں‘ کے باوجود پولیو کیسز کاخاتمہ ممکن نہیں ہو سکا۔ سب سے زیادہ کیسز خیبر پختونخوا‘ بلوچستان اور سندھ سے سامنے آتے ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ گزشتہ برس ان تینوں صوبوں میں نئے کیسز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ 2023ء میں خیبر پختونخوا میں پولیو کے چار کیسز سامنے آئے تھے مگر 2024ء میں 22۔ سندھ میں 2023ء میں دو کیسزتھے اور 2024ء میں 22‘ جبکہ بلوچستان میں 2023ء میں کوئی نیا کیس نہیں تھا مگر 2024ء میں یہاں 27کیس سامنے آئے۔انسدادِپولیو مہمات کی اس ناکامی کی وجوہات کی مکمل تحقیق و تفتیش کے بغیر ملک کو پولیو فری کرنا بے حد مشکل معلوم ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری انسدادِ پولیو ٹیمیں بڑی لگن اور جذبے کے ساتھ یہ قومی ذمہ داری ادا کرتی ہیں اور بعض اوقات خطرناک ماحول میں انہیں جانی نقصان یا دیگر رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن اب جبکہ ملک میں سکیورٹی کی صورتحال دس برس پہلے سے نسبتاً بہتر ہے‘ یہ سوال اہم ہے کہ ہم 2023 ء کے بعد سے پولیو کے سب سے بڑے اضافے کا مشاہدہ کیوں کر رہے ہیں؟ 2015ء سے 2024ء تک کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو 2019ء اور 20ء کے بعد 2024ء میں پولیو کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے۔ اس بڑے اضافے کے اسباب کو صحیح طور پر سمجھنے اور ان سے نمٹے بغیر انسدادِ پولیو مہم ہوا میں تیر چلانے کے مترادف ہے۔ مسلسل جاری انسدادی مہمات کے باوجود وائلڈ پولیو وائرس کا کیوں خاتمہ نہیں ہو رہا‘ اس کی وجوہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ رواں سال کے پہلے ایک ماہ کے دوران بھی ایک پولیو کیس سامنے آ چکا ہے جبکہ ایک خبر کے مطابق ملک کے مزید 26 اضلاع کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ یہ نمونے 6 تا 15 جنوری کے دوران حاصل کیے گئے تھے۔ انسدادِ پولیو میں ناکامی پاکستان کے عالمی تشخص کو مجروح کرتی ہے اور دنیا کی جانب سے امتیازی سلوک کی وجہ بن رہی ہے۔پاکستان چون کہ دنیا میں دوسرا ملک ہے جہاں اب بھی پولیو وائرس باقی ہے اس لیے یہاں سے بین الاقوامی سفر کرنے والوں کے لیے پولیو کی ویکسی نیشن‘ بلا لحاظ عمر‘ ضروری قرار دی گئی ہے تاکہ پولیو وائرس کے دوسرے ممالک میں پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ انسدادِ پولیو میں ناکامی ہماری ادارہ جاتی صلاحیت اور عزم پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ 30 سال کی جدوجہد کے باوجود اگر پولیو کے معاملے میں پاکستان اور افغانستان ایک ہی صف میں کھڑے ہیں تو یہ تشویشناک امر ہے۔ضروری ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے انسدادِ پولیو میں ناکامی کو ایک چیلنج سمجھیں اور اس کلن ک کے ٹیکے سے جان چھڑائی جائے جو تین دہائیوں کی مسلسل کوششوں کے باوجود ہماری جان نہیں چھوڑ رہا‘ بلکہ گزشتہ برس تو افغانستان کو بھی نئے پولیو کیسز میں مات دے دی۔ عوام میں بھر پور آگاہی اور ہر بچے تک یقینی رسائی کے بغیر ملک میں پولیو کا انسداد ممکن نہیں۔