سرمایہ کاری، امکانات اور توقعات
وزیراعظم شہباز شریف نے اگلے روز ورلڈ بینک گروپ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کے وفد سے ملاقات کے دوران سرمایہ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہماری ترجیح قرضوں کے بجائے سرمایہ کاری اور معاشی شراکت داری ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ملکی معیشت کا استحکام سرمایہ کاری پر منحصر ہے۔ اس میں اندرونی اور بیرونی‘ دونوں طرح کی سرمایہ کاری شامل ہے۔ اندرونی سرمایہ کاری کیلئے حکومت کو ایسی پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہوتی ہے جو سرمایہ داروں کو اپنا پیسہ کاروبار میں لگانے کی تحریک دیں۔ کم شرحِ سود‘حکومتی سطح پر صنعتوں کی حوصلہ افزائی‘ امن وامان اور مضبوط نظام انصاف سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے بنیادی عناصر ہیں۔ خوش آئند بات ہے کہ حکومت اس سلسلے میں اقدامات کرتی دکھائی دیتی ہے۔ شرح سود کی بات کریں تو گزشتہ برس اپریل کے مقابلے میں اس سال جنوری میں شرح سود آدھی رہ گئی اور افراطِ زر میں کمی کا حکومت جس طرح یقین دلا رہی ہے اس سے مطابقت پیدا کرنے کیلئے شرح سود میں ابھی مزید کمی کا خیال پایا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ آنے والے کچھ ماہ تک یہ 10 فیصد سے بھی کم سطح پر آ جائے۔ شرحِ سود میں کمی سرمائے کے ارتکاز کو روکتی اور صنعتوں اور کاروبار میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ امید ہے کہ اس کے ثمرات معاشی پہیے کی حرکت میں تیزی کا سبب بنیں گے۔ مگر یہی کافی نہیں‘ پاکستان کو سرمایہ کاری کیلئے پُرکشش منزل بنانے کیلئے ابھی اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکسوں کے نظام پر نظر ثانی بے حد اہم ہے کیونکہ ٹیکسوں کی بھر مار پاکستان سے سرمایہ کاروں کی روگردانی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ وہ ممالک جنہوں نے تیز ترین ترقی کی ہے وہاں کے ٹیکس نظام کا ریلیف اس کی بڑی وجہ ہے۔ ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کے بجائے ٹیکسوں کی بیس بڑھانے پر توجہ دی جائے تو سالانہ شرح ٹیکس میں اضافہ کیے بغیر حکومتی ریونیو میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مضبوط نظام عدل‘ قانون کی حکمرانی اور احساسِ تحفظ سرمایہ کاری کی قوتِ محرکہ ہے۔ اس لیے اس پر توجہ دینا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ معاشی پہلوؤں پر۔ پاکستان معاشی مواقع سے بھرپور ہے۔ نوجوان اکثریتی آبادی کے ساتھ پاکستان افرادی قوت سے بھی مالا مال ہے۔ معدنی وسائل اپنی جگہ پر ہیں‘ سب سے اہم پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع ہے‘ جو اسے مشرق ومغرب‘ شمال وجنوب میں پُل کا درجہ دیتا ہے۔ ان مواقع کو صحیح طور پر استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو خطے کی تجارت اور سرمایہ کاری کا مرکز بنایا جا سکتا ہے۔ گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور سی پیک کے منصوبوں کی صورت میں اس خواب کو عملی قالب میں ڈھالنے کی جانب پیشرفت ہو رہی ہے۔ ملک میں سرمایہ کاری کے امکانات کو بڑھانے کی اور بھی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ پاکستان پچیس کروڑ آبادی کے ساتھ ایک بڑی مارکیٹ ہے اور متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ ہاؤسنگ‘ آٹو موبائل اور زراعت وغیرہ۔ ماضی میں ہم اپنے وسائل اور امکانات کی درست مارکیٹنگ نہیں کر پائے جس کے سبب سرمایہ کاری کے مواقع سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ اس ضمن میں اب خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) مثبت تبدیلی لا سکتی ہے۔ دیگر متعلقہ فورمز کو بھی مؤثر بنا کر معیشت پر اعتماد بحال کیا جا سکتا اور سرمایہ کاری میں اضافہ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ البتہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سرمایہ کاری پُرامن ماحول میں ہی فروغ پاتی ہے؛ چنانچہ سرمایہ کاری کیلئے جو کوششیں ہو رہی ہیں‘ ان کی کامیابی ملک میں پائیدار قیام امن سے مشروط ہے‘ اور امن کو وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سکیورٹی صورتحال کے ساتھ سماجی اور سیاسی سطح پر بھی ماحول بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام قومی ہم آہنگی کیساتھ ہی انجام پا سکتا۔ فکری انتشار کے ماحول میں وہ اتفاق واتحاد ممکن نہیں جو قومی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے۔