اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

چینی بحران

گزشتہ برس ملکی ضروریات سے زائد چینی کی برآمد کی اجازت کے بعد سے چینی کی قیمت بڑھنے اور اس کی قلت کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا‘ وہ حکومت کے نوٹس اور متعدد اقدامات کے باوجود اب تک قابو میں نہیں آ سکا۔ چند روز قبل تک حکومت شوگر ملز کو 140 روپے ایکس مل پرائس کا پابند بنا رہی تھی اور اب یکایک خود ہی چینی کی 159روپے کلو ایکس مل پرائس کو تسلیم کر رہی ہے۔ سادہ الفاظ میں‘ عام صارف کو وہ چینی‘ برآمد سے قبل جو 130‘ 132 روپے فی کلو میں دستیاب تھی‘ اب 164 روپے میں ملے گی۔ حکومت کی جانب سے کارروائیوں اور قیمت کو کنٹرول میں لانے کے اعلانات کے باوجود اس وقت عام مارکیٹ میں چینی کی قیمت 180 روپے فی کلو کے لگ بھگ ہے۔ بجائے اس کے کہ حکومت ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندو مافیا کے خلاف کارروائیوں کر کے چینی کی اصل قیمت بحال کراتی‘ حکومت نے وہ درمیانہ راستہ چننے کا فیصلہ کیا ہے جس کا سارا بوجھ عوام کے کندھوں پر ہی منتقل ہو گا۔ چینی مافیا نے اس دوران اربوں روپے کما لیے مگر حکومت کی تمام بھا گ دوڑ کا نتیجہ عوام کی جیب پر مزید گراں ثابت ہوا ہے۔ گزشتہ برس چینی کی برآمد کی اجازت طلب کرتے وقت شوگر ملوں کی جانب سے ایڈوائزری بورڈ کو بتایا گیا تھا کہ ملک میں تقریباً 16لاکھ ٹن اضافی چینی موجود ہے جسے برآمد کیا جانا چاہیے۔ حکومت نے جون 2024ء میں ابتدائی طور پر ڈیڑھ لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی‘ جس میں اگست میں مزید ایک لاکھ ٹن کی توسیع کر دی گئی تھی۔ اس دوران چالیس ہزار ٹن چینی حکومتی سطح پر تاجکستان کو برآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔ بعد ازاں اکتوبر میں ایک بار پھر پانچ لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی مشروط اجازت دی گئی۔ یعنی مجموعی طور پر سولہ لاکھ ٹن ’’اضافی چینی‘‘ میں سے نصف سے بھی کم‘ سات لاکھ 90 ہزار ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی مگر اس کے باوجود ملک بھر کو گزشتہ ایک‘ ڈیڑھ ماہ سے چینی کی قلت کا سامنا ہے اور چینی کی قیمت میں 30 فیصد سے زائد اضافہ ہو چکا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اس دوران 3140 میٹرک ٹن چینی درآمد بھی کی گئی جس پر 30 لاکھ ڈالر سے زائد کا زرمبادلہ خرچ ہوا۔ شوگر ایڈوائزری بورڈ کی جانب سے چینی کی برآمد کی اجازت دیتے ہوئے یہ پابندی عائد کی گئی تھی کہ ملک میں چینی کی قیمت میں اضافہ نہیں ہو گا جبکہ حکومت کی جانب سے بھی یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ چینی کی قیمت نہیں بڑھنے دی جائے گی مگر سرکاری ڈیٹا بتاتا ہے کہ ساڑھے تین ماہ کے عرصے میں چینی اوسطاً 40 روپے پانچ پیسے مہنگی ہوچکی ہے۔ گزشتہ پانچ برس میں یہ تیسرا اور موجودہ اربابِ حکومت کے ماتحت دوسرا موقع ہے کہ ایک ہی پیٹرن پر چینی بحران پیدا ہوا اور اسکی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہوا۔ حالیہ چند برس میں اس معاملے پر اعلیٰ سطحی انکوائریاں بھی کرائی گئیں اور متعدد سفارشات بھی مرتب ہوئیں مگر اجارہ داروں اور ذمہ داروں کے خلاف اقدامات نہیں کیے گئے۔ ماہِ رمضان میں چینی کے حصول کیلئے عوام کو جس طرح خوار ہونا پڑ رہا ہے‘ وہ اس داستان کا ایک الگ پہلو ہے۔ حکومت مسلسل چینی کی سرکاری قیمتوں پر فراہمی کے دعوے کرتی رہی ہے مگر عملاً چینی کے نرخ مسلسل بڑھتے رہے۔ غذائی افراطِ زر اور مس مینجمنٹ کی یہ بدترین مثال ہے کہ ایک ملک‘ جو چینی کی پیداوار میں نہ صرف خودکفیل ہے بلکہ ضرورت سے کہیں زیادہ چینی پیدا کرتا ہے‘ اسے ہر سال نہ صرف چینی بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ مہنگے نرخوں پر چینی درآمد بھی کرنا پڑتی ہے۔ اس حوالے سے جب تک حکومت گرانی اور بحران کے بنیادی عوامل کی جانب متوجہ نہیں ہو گی‘ تب تک یہ مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ اس کیلئے سب سے اہم امر یہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی‘ کارٹلائزیشن اور برآمد کی اجازت کے لیے غلط اعداد وشمار پیش کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔ پیداوار‘ طلب اور رسد کا مؤثر میکانزم بنا کر ہی قیمتیں کنٹرول میں رکھی جا سکتی ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00