اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

خشک سالی الرٹ

محکمہ موسمیات کی جانب سے پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان میں خشک سالی کا الرٹ جاری کیا گیا ہے۔خشک سالی کے اثرات ملک بھر میں ہیں تاہم جنوبی علاقے اس سے زیادہ متاثر ہیں جہاں مسلسل 200 دن سے بارشیں نہیں ہوئیں۔ گزشتہ برس ستمبر سے اس سال 21مارچ کے دوران سندھ میں بارشوں میں 62فیصد‘ بلوچستان میں 52فیصد اور پنجاب میں 38فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں بھی بارشوں میں کمی نوٹ کی گئی ہے۔ زراعت پر طویل مدتی خشک سالی کے منفی اثرات ظاہر و باہر ہیں۔خشک سالی کے طویل دورانیے سے فصلوں کی پیداوار میں نمایاں کمی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے دوسری جانب آبپاشی کیلئے کاشتکاروں کے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورتحال میں بارانی علاقے زیادہ بڑی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ دریاؤں میں پانی کا حجم بھی خطرناک حد تک گر چکا ہے اور ملک میں پانی کے بڑے ذخائر کے پیندے ننگے ہو چکے ہیں۔ خشک سالی کا دورانیہ ابھی کتنا طول کھینچتا ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔اس صورتحال میں پانی کا بحران شدید صورت اختیار کر سکتا ہے؛ چنانچہ ضروری ہے کہ ان خدشات پر بروقت توجہ دی جائے۔ قدرت کی جانب سے اس قسم کے ماحولیاتی جھٹکے ہماری تربیت کرتے ہیں۔ یہ آگاہی اور گوشمالی کا انتظام ہمیں قدرتی ماحول کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور سماجی سطح پر غیر محتاط رویوں سے خبر دار کرتا ہے۔ آج جب ملک میں پانی کے ذخائر نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں‘ شاید ہی کوئی ہو جو آبی بحران کی سنگینی کو نظر انداز کرے۔ مگر جیسے ہی صورتحال میں تھوڑی بہتری آتی ہے آبی سکیورٹی کی حساس نوعیت ذہنو ں سے محو ہو جاتی ہے۔ یہ وتیرہ ہمارا پون صدی سے ہے ؛ چنانچہ تربیلا اور منگلا ڈیم کے بعد ہم کوئی بڑا ڈیم نہیں بناسکے۔اس طرح بارشیں کم ہونے کی صورت میں آبی قلت اور معمول سے زیادہ ہونے کی صورت میں سیلاب ہمارا مستقل روگ بنے رہے ہیں۔ تاہم وقت کیساتھ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں خشک سالی کے دورانیے بڑھتے چلے گئے ہیں‘ موسمیاتی شدت میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے اور ہمارے خطے کے تاریخی موسمیاتی دورانیے اور معمولات پر بڑے واضح اثرات نظر آتے ہیں۔ ہمیں نئے موسمیاتی مظاہر کے ساتھ مطابقت پیدا کر نے کی ضرورت ہے اور یہ اسی صورت ہو گا جب منفی موسمیاتی اثرات سے بچاؤ کے انتظامات کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ضروری ہو چکا ہے کہ حکومت موسمیاتی تبدیلیوں کی تحقیق اور اثرات کو سمجھنے کی کوششوں پر سرمایہ کاری کرے۔ یہ اقدامات معاشی حوالے سے بھی اہم ہیں کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا براہِ راست تعلق انسانی زندگی‘ ماحول اور معیشت سے ہے۔ بدلتے  موسموں کے ساتھ فصلوں کے روایتی دورانیے کو تبدیل کرنا یا نئی فصلوں کی جانب رجوع زرعی معیشت کیلئے مفید ہوسکتا ہے‘ مگر اس حوالے سے ابھی بہت کام ہونا چاہیے تا کہ حتمی طور پر یہ سامنے آ سکے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کون کون سی فصلوں کی بجائے کون سی فصلیں کاشت کرنا فائدے میں ہے۔ ان حالات میں آبی سکیورٹی کے اقدامات سے مزید صرفِ نظر قومی مفادات کے منافی ہو گا۔ پانی محفوظ رکھنے کیلئے نئی اختراعات پر کام کرنا ہو گا اور پانی کے استعمال میں کفایت شعاری کو قومی ذمہ داری سمجھناچاہیے۔ ہم قدرتی حالات کو اپنی مرضی کے موافق تبدیل نہیں کر سکتے مگر ان تبدیلیوں کے ساتھ خود کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں آنے والے وقت میں بھی اچانک تبدیل ہوتے موسموں کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ کبھی طویل خشک سالی ہو سکتی ہے اور کبھی بے موسمی اور غیر معمولی بارشیں۔ اگر بارشوں کے دنوں میں پانی ذخیرہ کرنے کے وسائل ہوں گے تو خشک سالی کے دن آسودگی سے کٹ سکتے ہیں۔ ہمیں دو انتہاؤں کے درمیان جینے کی صلاحیت پیدا کرنا ہو گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00