دہشت گردی میں اضافہ
سکیورٹی امور پر کام کرنیوالے ایک تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق مارچ میں ملک میں دہشتگردی کے 105 واقعات رپورٹ ہوئے‘ جو نومبر 2014ء کے بعد کسی بھی مہینے میں سب سے زیادہ ہیں۔ دہشت گردی کے ان سو سے زائد واقعات میں 86سکیورٹی اہلکاروں نے جامِ شہادت نوش کیا اور 78شہری بھی لقمۂ اجل بنے۔ یہ اعداد و شمار ملک میں دہشتگردی کے بڑھتے خطرات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان خاص طور پر دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں۔ ان دونوں صوبوں میں سرحد پار سے ہونیوالی دراندازی اور دہشتگرد تنظیموں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ امن و امان کیلئے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ اگرچہ سکیورٹی فورسز دہشتگردوں کے خلاف مسلسل کارروائیاں کر رہی ہیں اور مارچ میں مختلف آپریشنز میں 171 دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا تاہم اس خطرے کے مکمل خاتمے کیلئے ایک جامع اور کثیرالجہتی حکمت عملی ناگزیر ہے۔ اس مقصد کیلئے سب سے پہلے ملک میں سیاسی استحکام کا قیام ناگزیر ہے کیونکہ عدم استحکام دہشتگرد عناصر کو پنپنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ دوسرا سرحدوں کی مؤثر نگرانی اور عالمی اداروں کے ذریعے افغانستان پر دباؤ ڈالنا بھی ضروری ہے تاکہ دہشتگردوں کی دراندازی روکی جا سکے۔ تیسرا خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے‘ تعلیمی اصلاحات اور روزگار کے بہتر مواقع پیدا کرکے عوام کو دہشت گردوں کے چنگل سے نکالنا ہوگا۔ نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے عملدرآمد اور اسکے تمام نکات کی بحالی بھی بہت ضروری ہے۔