بجلی ریلیف!
وزیر اعظم شہباز شریف نے بجلی کی قیمتوں میں بڑی کمی کا اعلان کیا ہے ۔ گھریلو صارفین کیلئے سات روپے 41 پیسے اور صنعتی صارفین کیلئے سات روپے 59پیسے کمی بلا شبہ بڑا ریلیف ہے جس کے اثرات جہاں گھریلوصارفین کے ماہانہ اخراجات میں کمی کی صورت میں سامنے آئیں گے وہیں صنعتوں کی پیداواری لاگت میں کمی اور مسابقتی اہلیت میں بہتری آئے گی۔ بجلی پچھلے کچھ عرصہ سے صارفین کیلئے ڈراؤنا خواب بن چکی تھی۔ کیا گھریلو اور کمرشل صارفین اور کیا صنعتیں ‘ مہنگی بجلی کے اثرات نے سبھی کو چکرا کر رکھ دیا تھا۔ خاص طور پر موسم گرما کے مہینے ‘جب بجلی کی کھپت میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ گھریلو صارفین کی جیبوں پر بھاری گزرتے تھے ‘ جبکہ صنعتی صارفین مہنگی بجلی کی وجہ سے زیادہ پیداواری لاگت سے پریشان تھے اور بارہا اس پہ تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔پیرس میں قائم بین الاقوامی توانائی ایجنسی (IEA) کی رپورٹ’ الیکٹریسٹی 2025 ‘ جو کہ2027ء تک کی پیشگوئی پر مبنی ہے‘کے مطابق امریکہ اور بھارت میں 2024 ء میں بجلی کی اوسط شرح 6.3 سینٹ فی کلو واٹ آور‘، چین میں 7.7 سینٹ، ناروے میں 4.7 سینٹ اور یورپی یونین میں 11.5 سینٹ رہی‘جبکہ پاکستان میں بجلی کی اوسط قیمت تقریباً 13.5 سینٹ فی یونٹ تھی۔ بجلی کی قیمتوں پر نظر ثانی اور خاطر خواہ کمی ایک ایسا اصولی مطالبہ تھا جسے بہر صورت پذیرائی ملنی چاہیے تھی‘ بصورت دیگر اس کے منفی اثرات معیشت کی ترقی پر شدید منفی اثرات ڈالتے اور جہاں گھریلو صارفین بجلی کے بھاری بلوں سے پستے رہتے وہیں صنعتی ترقی کا امکان بھی دم توڑ دیتا۔ یہ سوال قابلِ غور ہے کہ جب خطے کے دیگر ملکوں میں بجلی پاکستان سے نصف سے بھی کم قیمت پر ملتی ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ پچھلے برسوں میں اس حوالے سے ماہرینِ معیشت اور توانائی تواتر کے ساتھ اپنے خیالات پیش کرتے آئے ہیں ۔ مرکزی خیال یہ کہ نجی بجلی گھروں کے ساتھ کیے گئے حکومتی معاہدوں کی متنازع شرائط مہنگی بجلی کا سبب بنیں۔ اس میں کپیسٹی پیمنٹ بھی شامل ہے اور دیگر مدات بھی جو مل کر بجلی کو اتنا مہنگا کر دیتی ہیں کہ نہ صنعتی مقاصد کیلئے قابلِ عمل رہتی ہے اور نہ گھریلو صارفین کیلئے قابلِ برداشت ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بجلی کی کھپت میں کمی‘ چوری میں اضافہ اور بلوں کی عدم ادائیگی کا رجحان بڑھتا گیا۔نتیجتاً گردشی قرضوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مہنگی بجلی سسٹم کی ناکامی کا نتیجہ ہے جو کئی خرابیوں کا سبب بنتی چلی گئی ۔حکومت نے ٹیرف میں کمی کا جو اعلان کیا ہے اس سے صنعتوں اور گھریلوصارفین کیلئے یقینا سہولت پیدا ہوئی ہے مگر ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت بدستور موجود ہے۔ اگر چوری اور دیگر لائن لاسز کم نہیں ہوتے اور بااثر طبقہ اپنے بل باقاعدگی سے ادا کرنے کا عادی نہیں بنتا تو بجلی کے شعبے کے خسارے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اس طرح یہ گھریلو اور صنعتی صارفین کیلئے بجلی کے نرخوں میں اضافے کا سبب بنتا رہے گا۔ ضروری ہے کہ اس ریلیف کے اقدام سے پائیدار اصلاح کیلئے فائدہ اٹھایا جائے۔بجلی کے شعبے کی گہرائیوں میں جو اصلاح درکار ہے اس پر کام کی رفتار اورعزم میں اضافہ کر نا ہو گاتا کہ ہمارا بجلی کا شعبہ اس خطے کے دیگر ملکوں کی طرح اتنا مستحکم ہو سکے کہ اپنے صارفین کو اس کے ثمرات منتقل کرسکے۔ اگر یہ شعبہ دائمی امراض میں مبتلا رہا تو بجلی کے نرخوں میں علاقائی ممالک سے مسابقت اور شہریوں کو سہولت فراہم کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے نظام کی اصلاح ناگزیر ہے نیزبجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کے ساتھ معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لینا اور معاہدوں کو انصاف اور عوامی مفاد کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ حالیہ کمی کے باوجود پاکستان میں بجلی کے نرخ بھارت اور بنگلہ دیش سے زیادہ ہیں۔یعنی بجلی کی قیمتوں میں ا بھی مزید کمی کی خاصی گنجائش ہے۔ امید ہے کہ حکومت آنے والے وقت میں اس حوالے سے مزید اقدامات بھی کرے گی۔