دہشت گردی کے خاتمے کا عزم
جمعہ کے روز آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت منعقدہ کور کمانڈر کانفرنس میں عسکری قیادت نے ملک سے دہشتگردی کے مکمل خاتمے کے قومی عزم کا اعادہ کیا ہے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ملک میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کیلئے کوئی گنجائش نہیں اور انکے خلاف بھرپور طاقت سے نمٹا جائے گا‘ بالخصوص بلوچستان میں امن و امان کو خراب کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جائے گی۔ یہ بیان نہ صرف افواجِ پاکستان کے پختہ عزم کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اُن تمام عناصر کیلئے دوٹوک پیغام بھی ہے جو وطن عزیز کو عدم استحکام کی جانب دھکیلنا چاہتے ہیں۔ اس وقت ملک بالخصوص بلوچستان اور خیبرپختونخوا دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ سکیورٹی امور سے متعلق ایک تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق مارچ کے دوران ملک میں دہشت گردی کے 105 میں سے 95 واقعات انہی دو صوبوں میں پیش آئے۔ ان صوبوں میں قیامِ امن کیلئے افواجِ پاکستان بے مثال قربانیاں دے رہی ہیں۔ تاہم یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ گورننس کا خلا صرف شہدا کے لہو سے نہیں پُر کیا جا سکتا۔ سکیورٹی فورسز کا کام دشمن کا قلع قمع کرنا اور ریاستی رِٹ قائم کرنا ہے مگر دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں تعلیم‘ صحت‘ صاف پانی‘ روزگار اور انفراسٹرکچر کی فراہمی سیاسی و انتظامی قیادت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ جب تک بلوچستان کے عوام کو معاشی طور پر مضبوط نہیں بنایا جاتا‘ وہاں نہ صرف پائیدار ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا بلکہ دہشت گردعناصر عوام کی محرومیوں کا ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے رہیں گے۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود بلوچستان بدستور پسماندگی کا شکار ہے۔ ہر آنے والی حکومت عوامی محرومیوں کے ازالے کا عزم تو کرتی ہے مگر عملی اقدامات شاذ ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صوبے میں خواندگی کی شرح صرف 54 فیصد ہے جو قومی اوسط 62 فیصد سے واضح طور پر کم ہے۔ 60 فیصد سے زائد آبادی صاف پانی اور بنیادی صحت کی سہولتوں سے محروم ہے جبکہ بیروزگاری کی شرح 30 فیصد اور غربت کی شرح 42 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔یہ وہ تلخ حقائق ہیں جو سکیورٹی آپریشنز سے نہیں بلکہ دیرپا سیاسی حکمت عملی اور مؤثر گورننس سے ہی تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومت‘ دونوں کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں اور دونوں کو ان کا ادراک ہونا چاہیے۔ اگرچہ افواجِ پاکستان نے اس ضمن میں مؤثر کردار ادا کرتے ہوئے صوبے میں متعدد تعلیمی و فنی ادارے قائم کیے ہیں تاہم یہ دائرہ کار پورے صوبے میں وسعت کا متقاضی ہے۔ منتخب سیاسی قیادت کو اپنی آئینی و اخلاقی ذمہ داریوں کا بھرپور ادراک ہونا چاہیے۔بلوچستان میں قیامِ امن کا خواب صرف اسوقت حقیقت کا روپ دھارے گا جب سکیورٹی کیساتھ ساتھ ترقی‘ روزگار‘ تعلیم اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ بھی یقینی بنایا جائے گا۔ یہی وہ راستہ ہے جو ملک کو دہشت گردی کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی جانب لے جائے گا۔