معاشی استحکام؟
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ملک میں معاشی استحکام آ چکا ہے‘ جو معاشی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ شرح سود میں نمایاں کمی ہوئی‘ جون کے آخر تک زرِمبادلہ کے ذخائر 13 ارب ڈالر ہو جائیں گے‘ اس وقت ایل سی کھولنے میں کوئی مشکلات نہیں ہیں‘ افراطِ زر میں ریکارڈ کمی ہوئی‘ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے‘ سٹاک مارکیٹ میں بھی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر خزانہ نے اپنی پریس کانفرنس میں جو معاشی اعداد وشمار پیش کیے ہیں‘ ان کی حقانیت سے کسی کو انکار نہیں مگر یہ معاشی تصویر کا محض ایک رخ دکھا رہے ہیں اور اس ادھوری تصویر کو بنیاد بنا کر معاشی استحکام کا دعویٰ غیر حقیقی معلوم ہوتا ہے۔ معاشی استحکام کا سب سے پہلا اشاریہ جی ڈی پی گروتھ ریٹ کو مانا جاتا ہے۔ ایک مستحکم معیشت تیز رفتاری سے آگے کی جانب بڑھتی ہے مگر ملکی معیشت پر نظر ڈالی جائے تو ادارۂ شماریات کے مطابق مالی سال 2025ء کی پہلی ششماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو محض 1.54 فیصد رہی۔ معاشی ماہرین کے مطابق یہ گزشتہ دس برسوں میں سب سے کم ترین ششماہی شرح ہے۔ زیادہ قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ حکومت نے رواں مالی سال کے لیے (نظر ثانی شدہ) تین فیصد شرح نمو کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔ یعنی دوسری ششماہی میں معیشت کو کم از کم 4.46 فیصد کی رفتار سے ترقی کرنا ہو گی تاکہ معاشی نمو کا ہدف حاصل کیا جا سکے مگر کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ موجودہ وسائل‘ معاشی حالات اور مستقبل کے امکانات پر نظر ڈالی جائے تو ایسی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی کہ دوسری ششماہی میں معیشت پہلی ششماہی کی نسبت تین گنا رفتار سے ترقی کر سکے۔ معیشت کا دوسرا بڑا اشاریہ غیر ملکی سرمایہ کاری ہے۔ 2025-26ء کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کے بارے میں اوور سیز انویسٹر چیمبر کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پالیسی‘ کرنسی اور سکیورٹی خطرات کی وجہ سے براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری محدود ہے۔ اگر گزشتہ مالی سال میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کا جائزہ لیا جائے تو مالی شعبے میں 46 کروڑ ڈالر‘ توانائی کے شعبے میں 80 کروڑ‘ آئی ٹی کے شعبے میں 4 کروڑ 80 لاکھ اور صنعت میں 10 کروڑ ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہوئی۔ ماہرینِ معیشت کے مطابق یہ کسی بھی معیار کے تحت ترقی پر مبنی ترتیب نہیں ہے کیونکہ صنعت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں سرمایہ کاری کا بہاؤ کم ہے اور ان شعبوں کی استعداد کے مطابق بھی نہیں۔ اسی طرح اگر بڑی صنعتوں (ایل ایس ایم) کا جائزہ لیا جائے تو رواں مالی سال کے ابتدائی سات ماہ کے دوران اس شعبے کی مجموعی ترقی منفی 1.8 فیصد رہی۔ گزشتہ 10 میں سے آٹھ سہ ماہیوں میں اس شعبے نے منفی نمو کا مظاہرہ کیا جبکہ صنعتی شعبے کے 22 میں سے 12 ذیلی شعبے آج سے دس سال پہلے کی نسبت بھی کم پیداواری صلاحیت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ان حالات میں کوئی چمتکار ہی معیشت کو مستحکم و مضبوط بنا سکتا ہے۔ اگرچہ قومی معیشت میں نمو کی صلاحیت سے انکار ممکن نہیں مگر اس کے لیے جس تندہی کی ضرورت ہے اب تک وہ نظر نہیں آ رہی۔ ان حالات میں ہمیں ’’اڑان پاکستان‘‘ کے اہداف پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہیے جس میں قومی معیشت کا حجم ایک ہزار ارب ڈالر تک بڑھانے اور برآمدات کو 60 ارب ڈالر تک لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس وقت برآمدات تقریباً 32 ارب ڈالر کی سطح پر ہیں‘ ان کو صرف زبانی دعووں اور طفل تسلیوں سے دو گنا تک نہیں بڑھایا جا سکتا۔ اگر صنعتیں جمود کا شکار رہیں گی‘ بیرونی سرمایہ کاری یونہی منہ موڑے رہے گی اور معاشی نمو اپنے نظر ثانی شدہ اہداف بھی حاصل نہیں کر سکے گی تو معاشی استحکام کا دعویٰ تو کجا‘ استحکام کی راہ کا پہلا پڑائو بھی ناقابلِ رسا گردانا جائے گا۔