امتیازی ٹیکس نظام
ایف بی آر کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران تنخواہ دار طبقے سے 391ارب روپے انکم ٹیکس جمع کیا گیا جو گزشتہ مالی سال میں جمع کرائے گئے مجموعی انکم ٹیکس سے 23 ارب روپے زیادہ ہے۔ دوسری جانب تاجر طبقے نے‘ اس عرصے میں صرف 26ارب روپے وِد ہولڈنگ ٹیکس جمع کرایا۔ جبکہ ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز نے صرف 17.5ارب روپے ٹیکس دیا۔ حکومت نے تنخواہ دار طبقے پر تو ٹیکسوں کا بھاری بوجھ لاددیاہے مگر جس طبقے کی آمدن کہیں زیادہ ہے اُس سے ٹیکس وصولی انتہائی کم ہے۔ٹیکس سسٹم میں یہ اونچ نیچ محصولات کے اضافے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور ٹیکس نظام پر خدشات اور اعتراضات کا موجب ہے۔ رواں مالی سال کے دوران اب تک ایف بی آر کو 714 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے‘ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ٹیکس نظام میں ایسی خامیاں پائی جاتی ہیں جو دولت مند طبقے سے ٹیکس وصول کرنے کے بجائے آسان اہداف سے اپنا کھاتہ پورا کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔انہی خامیوں کاگزشتہ ماہ ورلڈ بینک نے ذکر کیا اور پاکستان کے ٹیکس نظام کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے اس میں فوری اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر ایسے اقدامات کرے جن سے ٹیکس وصولی میں اضافہ ہو‘ غیر رسمی شعبے ٹیکس کے دائرے میں آئیں تاکہ ٹیکس کی وصولی ہر شعبے سے ہو نہ کہ صرف تنخواہ دار طبقے جیسے آسان اہداف تختہ مشق بنے رہیں۔