ہم تیار ہیں!
پاکستان اور بھارت کے نارمل تعلقات دنیا کے امن پسند حلقوں کی خواہش ہے مگر کم ظرف بھارتی قیادت جنگی جنون میں مبتلا ہے اورشعلوں کو ہوا دینے پر تُلی ہوئی ہے ۔ گزشتہ روز نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار‘ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری اور ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے مشترکہ پریس بریفنگ میں اسی خدشے کی طرف توجہ دلائی اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان جارحیت کا قائل نہیں مگر اپنے حقِ دفاع سے کبھی دستبردار نہیں ہو سکتا۔ ملکی سرحدوں کے ایک ایک انچ کا دفاع کیا جائے گا اور کسی بھی جارحانہ اقدام کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ مشترکہ پریس بریفنگ میں بھارت کی ہسٹیریائی کیفیت‘ مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک اور بی جے پی کے فسطائی ایجنڈے کو بھی حقائق کی روشنی میں بے نقاب کیا گیا۔ پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت کی جانب سے بھارت کی جانب شاخِ زیتون بڑھائی جا رہی ہے مگر بھارت کی جانب سے فوجیوں کی چھٹیاں منسوخ کرنے‘ لائن آف کنٹرول کے ساتھ دیہات خالی کرانے اور نیم فوجی دستوں کی تعداد میں اضافے جیسے اقدامات کشیدگی کے امکانات کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ 29اور 30اپریل کی درمیانی شب بھارت نے لائن آف کنٹرول پرفائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیانی‘ منڈل سیکٹر میں بلااشتعال فائرنگ کی جس پر پاک فوج نے دشمن کی کارروائی کا بھرپورجواب دیتے ہوئے بھارت کی چکپترا پوسٹ تباہ کر دی۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی فسطائیت‘ سرحدوں پر مسلسل کشیدگی‘ فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی اور پانی بند کرنے کی دھمکیاں دراصل پاکستان کو اشتعال دلانے والے اقدامات ہیں۔ پہلگام واقعے کے بعد بھارتی قیادت کی حواس باختگی سے ان کے مذموم ارادوں کا پتا لگانا کچھ مشکل نہیں۔ یہ محض پاکستان کے خدشات نہیں ‘ چند روز قبل امریکی اخبار نیویارک ٹائمز بھی اپنی رپورٹ میں کہہ چکا ہے کہ بھارت پاکستان پر حملے کے لیے اپنا کیس بنا رہا ہے اور پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے 100 سے زائد غیر ملکی مشنز کے سفارتکاروں کو وزارتِ خارجہ بلا کر بریفنگ دی ہے۔ اگرچہ اس بریفنگ میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے گئے اور یہ بہانہ بنایا گیا کہ بھارت کو معلومات اکٹھی کرنے کیلئے مزید وقت درکار ہے‘ مگر اس بریفنگ کا واضح مقصد پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کیلئے عالمی حمایت حاصل کرنا تھا۔ یہاں عالمی برادری کی ذمہ داری دوچند ہو جاتی ہے۔ دنیا کو اب یہ مان کر چلنا ہو گا کہ پاکستان اوربھارت کے تعلق کی موجودہ صورت ماضی سے مختلف ہے۔ رسمی طور پر دونوں ملکوں میں بات چیت کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا جاتا ہے مگر حالیہ چند برسوں کے دوران بار بار کی کشیدگیوں کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے تعلقات اس قدر نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ اب بات چیت کے کسی کارگر عمل کا امکان نظر نہیں آتا۔ پاکستان اور بھارت دو نیوکلیائی ممالک ہیں؛ چنانچہ یہ امر یقینی ہے کہ اگر اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو تصادم کا خطرہ جنوبی ایشیا میں پھیل سکتا ہے بلکہ دنیا کے امن کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے اس ضمن میں مثالی ٹھہراؤ کا مظاہرہ خوش آئند ہے۔ گزشتہ روز امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ٹیلی فونک رابطے کے دوران بھی وزیراعظم شہباز شریف نے پہلگام واقعے میں پاکستان کو ملوث کرنے کی بھارتی کوششوں کو مسترد کرتے ہوئے حقائق کو سامنے لانے کیلئے شفاف‘ معتبر اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے اپنے مطالبے کو دہرایا۔ پاکستان کی جانب سے اس معقول پیشکش کے باوجو د اگربھارت جنگ کی گیدڑ بھبکیاں مارے گا تو یہ اوچھا پن مودی کی شہرت پسندی اور سیاسی خود غرضی کے سوا کچھ نہیں۔