معرکہ حق‘ یومِ تشکر
معرکۂ حق میں تاریخی فتح پر کل جمعۃ المبارک کو ملک بھر میں یوم تشکر منایا گیا اور افواج پاکستان اور عوام کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اس سلسلے میں ملک بھر کی مساجد میں خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا گیا اور صوبائی دارالحکومتوں میں سلامی دی گئی جبکہ یوم تشکر کی مرکزی تقریب اسلام آباد میں منعقد ہوئی جہاں حکومت اور مسلح افواج کی قیادت اور شہدا کے اہلِ خانہ سمیت بڑی تعداد میں ملکی عمائدین اور پاکستان میں تعینات سفارتی اراکین شریک تھے۔ اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں وطن عزیز کے دفاع میں جانیں نچھاور کر نے والوں کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم یک جان ہے اور مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہے‘ وقت آ گیا ہے کہ اس سفر کا آغاز کریں جس کیلئے پاکستان معرض وجود میں آیا تھا‘ یہ جو اخوت ہے اس کو سرمایۂ حیات بنا کر چل پڑیں تو ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ جنگ پاکستان کا انتخاب ہرگز نہیں تھی‘ یہ جنگ پاکستان پر تھوپی گئی مگر اس کا انجام جس طرح پاکستان کی عظیم فتح پر ہوا اور جس طرح بھارتی غرور کا بت پاش پاش ہوا اس کے اثرات خطے کیلئے دیرپا ہوں گے۔ اپنے ہمسایہ ممالک کو دباؤ میں رکھنے کی خواہش نے بھارت کو جنوبی ایشیا کے سبھی ممالک سے دور کیا۔ اگرچہ ماضی میں بعض ممالک وہاں کی حکومتوں کی بھارت نوازی یا دیگر کمزوریوں کی وجہ سے بھارت کے سامنے سر جھکانے پر مجبور رہے مگر طاقت کے نئے منظر نامے سے بہت کچھ بدلنے کا امکان واضح دکھائی دیتا ہے ۔ قوی امکان ہے کہ آنے والے کچھ وقت میں ہمیں جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بہت حد تک تبدیل شدہ دیکھنے کو ملے۔ بہرکیف یہ حقیقت اپنی جگہ پرہے کہ پاکستان کے کبھی بھی توسیع پسندانہ عزائم نہیں رہے۔ پاکستان نے ہمیشہ ہمسایہ اور خطے کے ممالک کے ساتھ بقائے باہمی‘ تعاون اور ترقی کی بنیاد پر دو طرفہ تعلقات کو اہمیت دی ہے۔پاکستان کی یہ خواہش بھارت کیلئے بھی رہی ہے۔ پہلگام واقعے کو بنیاد بنا کر بھارت کی جانب سے ہر طرح کی الزام تراشی کے باوجود پاکستان کی جانب سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ اس جذبے اور اعتماد کا مظہر ہے کہ پاکستان خطے میں کشیدگی کا محرک نہیں اور نہ ہی اس کی خواہش رکھتا ہے۔ مگر جنگی پاگل پن میں مبتلا مودی سرکار کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ پاکستان کی پیشکش کا مثبت جواب دینے کے بجائے رات کے اندھیرے میں پاکستان کی شہری آبادیوں اور مساجد پر بمباری کر دی گئی۔ الحمدللہ بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا گیا اور جنگی جنون کی ناک زمین پر رگڑی گئی‘ مگر اس فیصلہ کن برتری کے باوجود پاکستان آج بھی مذاکرات کے مؤقف پر قائم ہے۔ اگلے روز نائب وزیراعظم اسحق ڈار نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ کمپوزٹ ڈائیلاگ کا ذکر کیا۔ کمپوزٹ ڈائیلاگ کے احیا کی خواہش اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام حل طلب مسائل پر بات چیت کیلئے تیار ہے اور خطے میں دیرپا امن چاہتا ہے۔ دونوں ملکوں میں 1997ء میں کمپوزٹ ڈائیلاگ کا عمل شروع ہوا تھا جس کا مقصد تمام اہم مسائل پر جامع بات چیت کرنا تھا۔ اس ڈائیلاگ میں آٹھ اہم نکات شامل تھے؛ مسئلہ کشمیر‘ سیاچن‘ سرکریک‘ پانی کے مسائل‘ دہشت گردی‘ تجارتی تعلقات‘ ثقافتی تبادلے اور بین الاقوامی تعاون۔ کمپوزٹ ڈائیلاگ کے احیا سے نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں‘ مگر تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ پاکستان نے مذاکرات کی بحالی کی خواہش کا اظہار کیا ہے لیکن بھارت کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔ مذاکراتی عمل کو پائیدار بنانے کیلئے اعتماد سازی ناگزیر ہے‘ مگر بھارت کے اندرونی سیاسی مسائل اورحکومت پر شدت پسندوں کا قبضہ اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔