پانی کی کفایت شعاری
لاہور ہائی کورٹ نے پانی کا ضیاع روکنے کے لیے پنجاب بھر کے سروس سٹیشنوں میں واٹر ری سائیکلنگ پلانٹس لگانے کا حکم جاری کیا ہے۔ ہمارے ہاں پانی کے استعمال کے حوالے سے کوئی واضح ضابطہ‘ مانیٹرنگ یا احتساب کا نظام موجود نہ ہونے کی وجہ سے گھریلو ‘ صنعتی اور زرعی ہر سطح پر پانی کا بے دریغ استعمال معمول بن چکا ہے ۔ ایک تحقیق کے مطابق بعض پاکستانی دنیا بھر میں پانی کے اوسط فی کس استعمال سے 10گنا زیادہ پانی صرف کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت ملک میں پانی کی جوفی کس دستیابی پانچ ہزار چھ سو کیوبک میٹر سے زائد تھی وہ اب آٹھ سو کیوبک میٹر فی کس تک محدود ہو چکی ہے۔ ملک کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں زیر زمین پانی کی سطح کئی سو فٹ تک نیچے چلی گئی ہے۔ بھارت کی آبی جارحیت کی وجہ سے اب دریاؤں میں بھی پانی کی کمی کا سامنا ہے۔اس آبی بحران کے فوری اثرات روزمرہ زندگی اور زرعی شعبے میں واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں‘ مگر افسوس کہ اب بھی نہ تو حکومتی سطح پر اور نہ ہی انفرادی طور پر ہم پانی کی بچت اور اس کے محتاط استعمال کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ ایک ایسا ملک جس پر پانی کے وسائل کی قلت کے سائے منڈلاتے ہوں وہاں پانی جیسے حیات کے لازمی جزو کے معاملے میں لاپروائی مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آتی ہے۔ زیر زمین اور دریائی پانی کی قلت واضح ہے ‘ مگر بے احتیاطی اور ضیاع بدستور جاری ہے۔یہ سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔