سہ ملکی سٹرٹیجک اتحاد
آذربائیجان کے شہر لاچین میں پاکستان‘ ترکیہ اور آذربائیجان کے سہ فریقی اجلاس اور آذربائیجان کے یومِ آزادی کی تقریب میں تینوں ملکوں کے سربراہان نے باہمی سٹرٹیجک تعاون کو مستحکم بنانے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ تینوں ممالک علاقائی سالمیت‘ خودمختاری اور انصاف پر یقین رکھتے ہیں۔ آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کا کہنا تھا کہ یوم آزادی کی تقریب میں برادر ملکوں ترکیہ اور پاکستان کی شرکت باعثِ فخر اور مضبوط دوستی کی عکاس ہے‘ تینوں ممالک کا تعاون مزید مستحکم ہوگا۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ترک‘ پاکستان اور آذربائیجان تین خودمختار ریاستیں اور ایک قوم ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان‘ ترکیہ اور آذربائیجان مذہب‘ اقدار‘ ثقافت اور تاریخ کے بندھن میں بندھے ہیں‘ تینوں ممالک بنیادی ایشوز پر ایک دوسرے کی بھرپور حمایت کرتے ہیں‘ امید ہے سہ فریقی اتحاد مستقبل میں مزید مضبوط ہوگا۔ اس سے قبل جولائی 2024ء میں آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے موقع پر تینوں ملکوں کے سربراہان نے سہ ملکی اتحاد کی بنیاد رکھی تھی اور اس اعتبار سے یہ اس سہ ملکی اتحاد کا دوسرا اجلاس تھا۔ مذہبی‘ ثقافتی اور مذہبی اقدار کے علاوہ دفاعی اور عسکری شعبوں میں بھی تینوں ممالک میں تعاون بڑھ رہا ہے۔ پاکستان ترکیہ کے ساتھ ٹی ایف ایکس‘ ففتھ جنریشن سٹیلتھ ٹیکنالوجی کے حامل لڑاکا طیاروں کے منصوبے پر کام کر رہا ہے جبکہ آذربائیجان کے ساتھ گزشتہ برس ستمبر میں ایک بڑا دفاعی معاہدہ طے پایا تھا‘ جس کے مطابق پاکستان آذربائیجان کو جے ایف 17تھنڈر سی بلاک لڑاکا طیارے اور دیگر جنگی ساز وسامان برآمد کرے گا۔ مختلف سیاسی و جغرافیائی ایشوز پر بھی تینوں ممالک ہم خیال ہیں۔ ترکیہ اور آذربائیجان مسئلہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے اصولی مؤقف کی غیر متزلزل حمایت کرتے ہیں جبکہ پاکستان نگارنو کاراباخ کے مسئلے پر آذربائیجان جبکہ قبرص کے معاملے پر غیر مشروط طور پر ترکیہ کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری سطح کے علاوہ ان ملکوں میں عوامی سطح پر بھی باہمی اعتماد کا رشتہ پایا جاتا ہے۔ حالیہ چار روزہ پاک بھارت جنگ کے دوران ترکیہ اور آذربائیجان مکمل طور پر پاکستان کے ساتھ کھڑے نظر آئے اور ان کی اس ٹھوس حمایت ہی کے سبب بھارت میں انتہا پسندوں کی جانب سے ان ملکوں کے اقتصادی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ آذربائیجان کے صدر نے پاکستان میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا بھی اعادہ کیا ہے۔ گزشتہ برس جولائی میں صدر الہام علیوف نے دورۂ پاکستان کے موقع پر پاکستان میں سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا جبکہ فروری 25ء میں وزیراعظم شہباز شریف کے دورۂ باکو کے دوران اس معاہدے پر مزید پیشرفت ہوئی اور اپریل کے آخری ہفتے صدر علیوف کا دورۂ پاکستان شیڈول تھا جو پہلگام حملے کے بعد پاک بھارت کشیدگی کے باعث نہ ہو سکا اور اس حوالے سے جلد پیش رفت متوقع ہے۔ آذربائیجان نے 2027ء تک پاکستانی چاول کی درآمدات کو ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دے رکھا ہے مگر اس کے باوجود پاکستان کی چاول برآمدات آذربائیجان کی کُل چاول درآمدات کا محض چار فیصد ہیں۔ گزشتہ برس پانچ ملین ڈالر کے چاول پاکستان سے آذربائیجان کو برآمد کیے گئے۔ ضروری ہے کہ باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کیلئے تجارت کے فروغ کے معاہدوں کو بھی عملی جامہ پہنایا جائے اور حائل تمام رکاوٹیں دور کی جائیں تاکہ مضبوط باہمی تعلقات معاشی اعتبار سے مضبوط تر ہو سکیں۔ تینوں ممالک دفاع‘ توانائی‘ نقل وحمل‘ انسدادِ دہشت گردی‘ تعلیم‘ انٹیلی جنس شیئرنگ اور تکنیکی مدد سمیت مختلف شعبوں میں تعاون واشتراک کے فروغ کے مختلف معاہدوں پر بھی دستخط کر چکے ہیں‘ تاہم اس سلسلے میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے جس کیلئے درست سمت میں سہ فریقی اجلاس جیسی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔