گرمی کے دورانیے میں اضافہ
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران دنیا کی نصف آبادی کو اپنے ہی پیدا کردہ ماحولیاتی بگاڑ کے باعث معمول سے ایک ماہ سے زیادہ گرمی برداشت کرنا پڑی۔ رپورٹ کے مطابق فوسل فیولز کا بڑھتا ہوا استعمال‘ صنعتی اخراج‘ جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور غیر متوازن ترقیاتی پالیسیاں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں شدید گرمی‘ خشک سالی‘ فصلوں کی تباہی‘ بیماریوں میں اضافہ‘ توانائی اور صحت کے نظام پر دباؤ اور انسانی جانوں کا ضیاع معمول بن چکا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں‘ جہاں پہلے ہی وسائل محدود‘ بنیادی سہولتیں ناکافی اور شہری منصوبہ بندی کمزور ہے‘ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کہیں زیادہ خطرناک شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ ایسے میں حکومت کو عالمی موسمیاتی فنڈز کے حصول کیساتھ ساتھ اپنی ماحولیاتی پالیسیوں میں بھی انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ان اصلاحات میں جنگلات کا رقبہ بڑھانا‘ فوسل فیولز کے بجائے متبادل توانائی کے ذرائع اختیار کرنا‘ صنعتی اخراج پر قابو پانا اور قومی سطح پر ایک ’ہیٹ ایکشن پلان‘ مرتب کرنا شامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے مزید صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہر گزرتا سال یہ واضح کر رہا ہے کہ اگر ہم نے ماحولیاتی توازن کی حفاظت نہ کی تو زمین رہنے کے قابل نہیں رہے گی اور پاکستان جیسے ملک اس تباہی کی پہلی صف میں شامل ہوں گے۔