اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

معاشی استحکام کی بنیاد

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بجٹ کے سلسلے میں آئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات کامیاب رہے ہیں۔وزیر اعظم کے بقول ہم نے معاشی استحکام حاصل کر لیا ہے‘ اب ہمیں معاشی ترقی کے سفر کا آغاز کرنا ہو گا۔ معاشی استحکام کی خبر باعث اطمینان ہے اور عالمی معاشی ادارے بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں۔ گزشتہ ماہ آئی ایم ایف کی جانب سے سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی دوسری قسط کا اجرا‘ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز کی جانب سے پاکستانی معیشت کی بحالی اور مہنگائی میں کمی کا اعتراف‘ عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ اور اُبھرتی ہوئی معیشتوں کی عالمی کانفرنس میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کی جانب سے پاکستانی معیشت کے درست سمت میں آگے بڑھنے کو تسلیم کیا گیا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی اداروں کی رپورٹوں میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ استحکام‘ درحقیقت ایک ٹھہرائو ہے جو وقتی ہے کیونکہ ملک کی معاشی کمزوریاں اب بھی برقرار ہیں جو مستقبل کیلئے تشویش کا باعث ہیں‘ جب تک ان خرابیوں کو دور نہیں کیا جاتا حقیقی معاشی استحکام یا معاشی اُڑان کی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اکتوبر 2024ء میں آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی منظوری کی دستاویز میں پاکستانی معیشت سے متعلق کہا گیا تھا کہ اس کا بڑا حصہ غیر مسابقتی ہے اور اسے بڑے پیمانے پر حفاظتی اقدامات‘ سبسڈی اور ٹیکس مراعات کے ذریعے قائم رکھا گیا ہے جس نے ٹیکس بیس کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ مشکل کاروباری ماحول‘ سرمایہ کاری کی راہ میں درپیش رکاوٹیں اور متزلزل میکرو اکنامک پالیسیوں سمیت متعدد ایسی فالٹ لائنز کی نشاندہی کی گئی جو پاکستانی معیشت کی اٹھان میں حائل ہیں۔ وزیرِ خزانہ متعدد فورمز پر کہہ چکے ہیں کہ ہم نے پائیدار طریقے سے ترقی کرنی ہے تو یہ برآمدات کے ذریعے ہی ہو گی‘ مگر اس کے باوجود لارج سکیل مینوفیکچرنگ کا شعبہ حکومتی بے اعتنائی کی داستان بیان کر رہا ہے۔رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں لارج سکیل مینو فیکچرنگ کی نمو منفی 1.9 فیصد رہی جبکہ اس مدت میں معاشی نمو کی شرح بھی 1.45 فیصد رہی۔ اگر معاشی نمو کی رفتار بڑھانی ہے تو پیداواری شعبے بالخصوص بڑی صنعتوں پر توجہ دینا ہو گی۔ اس وقت دنیا بھر میں معاشی بے یقینی کے حالات ہیں۔ ہر شعبہ بڑے پیمانے پر بنیادی اور ساختی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہے۔ یہ تبدیلیاں عالمی معاشی نظام کی بھی تشکیلِ نو کر رہی ہیں۔ ان حالات میں صرف وہی معیشت محفوظ اور مربوط رہ سکتی ہے جو داخلی استحکام کی حامل ہو۔ پاکستان کو قدرت نے ایسے وسائل سے نواز رکھا ہے جو داخلی استحکام کے لوازمات کی تکمیل کرتے ہیں مگر پالیسیوں میں عدم تسلسل‘ ضروری اقدامات اور جدیدیت سے گریز کی روش نے ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ درست معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کے ذریعے اب داخلی معاشی استحکام پیدا کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے تاکہ معیشت کو بیرونی جھٹکوں سے زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھا جا سکے۔ معاشی ٹھہرائو اپنی جگہ مگر درپیش چیلنجز سنگین ہیں۔ ضروری ہے کہ اب بجٹ میں عملی اقدامات پر زیادہ زور دیا جائے۔ قومی اداروں میں پائیدار اصلاحات لاگو کی جائیں‘ خسارے کے شکار اداروں سے جان چھڑاتے ہوئے مالیاتی توازن پیدا کیا جائے اور ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کیساتھ حکومتی اخراجات اور قرضوں کو بھی کسی ضابطے میں لایا جائے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران حکومتی ریونیو میں کوئی چار گنا اضافہ ہو چکا ہے مگر اس عرصے میں حکومتی اخراجات میں بھی اسی حساب سے اضافہ ہو ا ہے‘ نتیجتاً اضافی ریونیو کے باوجود صحت ‘ تعلیم اور قومی بہبود کے دیگر شعبوں پر سرمایہ کی صورتحال بدستور کسمپرسی کا شکار ہے۔ ہر آنیوالی حکومت کفایت شعاری کے بلند بانگ دعوے کرتی ہے مگر عملاً شاہانہ اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔حکومتی اخراجات میں کمی اور محصولات کی مفید سرمایہ کاری کے بغیر معاشی ترقی کا استحکام ناممکن ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں