اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

نگلیریا سے بچائو

گزشتہ روز کراچی میں نگلیریا جرثومے کی وجہ سے ایک شخص لقمہ اجل بن گیا۔ رواں سال اس مہلک جرثومے سے اب تک دو ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور یہ دونوں کراچی میں ہوئی ہیں۔ نگلیریا ایسا جرثومہ ہے جو ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہو کر جان لیوا انفیکشن پھیلاتا ہے اور عام طور پر غیر کلورین شدہ یا آلودہ پانی اس کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس جرثومے سے ہونیوالی بیماری نہایت تیزی سے حملہ آور ہوتی ہے اور اسکی شرح اموات تقریباً 100 فیصد ہے‘ لیکن مناسب احتیاطی تدابیر اپنا کر اس مرض سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ نگلیریا سے ہونے والی ان اموات نے کراچی کے آبی ترسیلی نظام پر بھی سوال اٹھا دیا ہے۔ کراچی میں پانی کی فراہمی کا نظام برسوں سے ناقص اور غیر محفوظ ہے۔ جگہ جگہ پرانی پائپ لائنیں‘ غیر محفوظ بورنگ اور غیر معیاری واٹر ٹینک نہ صرف ہیضہ‘ ٹائیفائڈ اور دیگر بیماریوں کا سبب بنتے ہیں بلکہ اب نگلیریا جیسے مہلک جرثومے کی موجودگی بھی ایک نیا چیلنج بن چکی ہے۔گزشتہ چند برسوں سے ہر سال موسمِ گرما میں نگلیریاکے کیسز سامنے آرہے ہیں۔جہاں صوبائی حکومتوں اور بلدیاتی اداروں کو شہروں میں پانی کے فراہمی کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے وہیں شہریوں کو بھی چاہیے کہ اپنے گھروں کی ٹنکیوں کی باقاعدگی سے صفائی کریں۔ یہی اصول سوئمنگ پولز پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ احتیاطی تدابیر ہی نگلیریا سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں