معاشی کارکردگی کا جائزہ
مالی سال 2024-25ء کا اکنامک سروے معیشت کے بتدریج استحکام کی جانب پیش قدمی کا عندیہ دیتا ہے۔ اگرچہ اس سال کے دوران زراعت‘ صنعت اور خدمات کے شعبے قابلِ ذکر نمو حاصل نہیں کر سکے۔ زرعی شعبے کی نمو 0.56 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال کے دوران 6.4فیصد اور مالی سال 2022-23ء کے دوران 2.2 فیصد تھی۔ صنعتی شعبے کی بات کریں تو بڑے پیمانے کی صنعتکاری کی کارکردگی منفی 1.5 فیصد اور ٹیکسٹائل جیسے اہم ترین برآمدی شعبے کی نمو 2.2 فیصد رہی اور خدمات کے شعبے کی نمو 2.91 فیصد رہی۔ رواں مالی سال کے دوران جی ڈی پی کی نمو 2.68 فیصد رہی جو 3.6 فیصد کے ہدف سے کم مگر گزشتہ سال سے قدرے بہتر ہے۔ گزشتہ مالی سال میں 3.5فیصد کے ہدف کے مقابلے میں جی ڈی پی کی شرح نمو 2.5تھی۔ تاہم اس سال جس شعبے کی نمو میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے وہ حکومتی محصولات کا شعبہ ہے۔ مالی سال 2024-25 ء کے دوران حکومت کے ٹیکس ریونیو میں 25.8 فیصد اور نان ٹیکس ریونیو میں 68 فیصد اضافہ ہوا۔ دوسری اہم چیز جس میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے وہ حکومتی قرضے ہیں‘ جو 2018ء میں 24,953 ارب روپے تھے مگر رواں سال مارچ تک 76,007 ارب روپے تک پہنچ گئے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے مطابق حکومتی قرضوں کی ادائیگی قومی خزانے کا سب سے بڑا خرچ ہے۔ ملکی اور غیر ملکی مالیاتی اداروں سے بے تحاشا قرض کی روایت بدلے بغیر معیشت کا استحکام ممکن نہیں۔ اس کے لیے موجودہ اور سابقہ حکومتیں بڑے انقلابی تصورات پیش کرتی رہی ہیں مگر عملی صورتحال اس اکنامک سروے میں دیے گئے اعداد وشمار سے واضح ہے کہ کس طرح پاکستانی اپنا پیٹ کاٹ کر جو ٹیکس کی مد میں ادا کرتے ہیں وہ قرضوں پر سود کی نذر ہو جاتا ہے۔ اگر یہی رقم قومی ترقی اور عوامی بہبود پر خرچ ہو تو صحت‘ تعلیم اور مفادِ عامہ کے دیگر شعبوں میں بہتری لائی جا سکتی ہے ۔ تعلیم کے شعبے میں اس وقت قومی اخراجات جی ڈی پی کے 0.8 فیصد کے برابر ہیں۔ 2018-19ء میں یہ اخراجات جی ڈی پی کے دو فیصد کے برابر تھے مگر ہر سال بتدریج کم ہوتے ہوتے 0.8 فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔ شعبہ صحت کی حالتِ زار بھی شعبہ تعلیم سے مختلف نہیں۔ اس شعبے پر جی ڈی پی کے 0.9 فیصد کے برابر خرچ کیا جا رہا ہے۔ 2018-19ء میں شعبہ صحت پر جی ڈی پی کا ایک فیصد خرچ کیا گیا اور مالی سال 2022-23ء تک صحت پر ایک فیصد یا اس سے زائد خرچ کیا گیا‘ مگر اس کے بعد یہ اخراجات جی ڈی پی کے 0.9 پر آ گئے۔ صحت اور تعلیم پر بالحاظ جی ڈی پی اخراجات میں پاکستان بنگلہ دیش کے بعد جنوبی ایشیا کے سبھی ممالک سے پیچھے ہے۔ قومی واجبات کا غیر معمولی حجم قومی ترقی کے اہم شعبوں پر اخراجات میں کمی کی بڑی وجہ ہے؛ چنانچہ بے تحاشا حکومتی قرضوں کو قومی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کے طور دیکھنا چاہیے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ معاشی بنیادوں کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ معاشی ڈھانچے کی اصلاح کے بغیر معاشی استحکام اور ترقی کا امکان نہیں۔ وزیر خزانہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کی بات کرتے ہیں جس میں ہر صورت اضافہ ہونا چاہیے تا کہ اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار سے کسی حد تک افاقہ ہو مگر یہ سب یکطرفہ نہیں ہو سکتا۔ اگر ترقی درکار ہے تو اسے ہمہ جہت ہونا چاہیے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں اضافہ ناگزیر ہے مگر اس کا اثر عوامی بہبود‘ تعلیم اور صحت پر بھی نظر آنا چاہیے۔ آنے والا وفاقی بجٹ یہ طے کرے گا کہ کیا یہ امیدیں مربوط معاشی وژن میں ڈھل کر عوام کو ریلیف اور معیشت کو پائیدار بنیاد فراہم کریں گی یا پھر یہ کہانی بھی سابقہ ’بُوم اینڈ بسٹ‘ ادوار کے ایک وقفے تک محدود رہ جائے گی۔