کم از کم اجرت کی عدم ادائیگی
سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ صوبے کے نجی صنعتی اداروں میں سے 80 فیصد مزدوروں کو حکومت کی طرف سے مقرر کی گئی کم از کم تنخواہ ‘ جو اس وقت 37ہزار روپے ماہانہ ہے‘ ادا نہیں کی جارہی۔ یہ صورتحال ان دگرگوں معاشی حالات میں اور زیادہ سنگین ہے جن کا سامنا اس وقت عام پاکستانی کو ہے۔ روزمرہ اشیائے ضروریہ کی ناقابلِ برداشت قیمتیں‘ کرایوں‘ یوٹیلیٹی بلوں اور تعلیمی و طبی اخراجات کا بوجھ ایک عام مزدور کی برداشت سے باہر ہے۔ یہ مسئلہ صرف سندھ تک محدود نہیں دیگر صوبوں میں بھی کم از کم تنخواہ کی عدم ادائیگی ایک عام شکایت ہے۔ اکثر چھوٹے کارخانوں‘ نجی سکیورٹی ایجنسیوں‘ دکانوں‘ ورکشاپوں اور فیکٹریوں میں کام کرنیوالے مزدوروں کو نہ صرف مقرر کردہ تنخواہ سے کم تنخواہ دی جاتی ہے بلکہ ان کا سوشل سکیورٹی میں اندراج تک نہیں ہوتا۔لہٰذا متعلقہ اداروں خصوصاً لیبر ڈپارٹمنٹ اور محکمہ سوشل سکیورٹی کو فوری طور پر متحرک ہونا چاہیے۔ صرف کم از کم اجرت کا حکم جاری کر دینا کافی نہیں؛ ضروری ہے کہ اس پر سختی سے عمل کروایا جائے اور جو ادارے اس قانون کی خلاف ورزی کریں ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اگر کم از کم تنخواہ کا اطلاق مکمل طور پر ممکن بنا دیا جائے تو لاکھوں خاندانوں کی زندگی میں فوری بہتری آ سکتی ہے۔