ایران اسرائیل تصادم کے مضمرات
ایران۔ اسرائیل تصادم عالمی اور علاقائی امن کیلئے شدید خطرے کا موجب ہے۔یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں اسرائیلی جارحیت کا دائرہ پھیل رہا ہے اور صہیونی ریاست بہت سی سرخ لکیریں پامال کر چکی ہے۔ خطے کے مسلم ممالک کیلئے یہ بڑے خطرے کی علامت ہے‘ خاص طور پر ان ممالک کیلئے جن کا دفاع زیادہ مضبوط نہیں یا وہ جو صہیونی ریاست کے عزائم کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ان اسرائیلی حملوں کا ہدف اگرچہ ایران ہے مگر اس کے مضمرات صرف ایران تک محدود نہیں‘ مشرقِ وسطیٰ کا پورا خطہ کسی نہ کسی طرح اس خطرے کی زد میں ہے ۔ایران اسرائیل کشیدگی طول پکڑنے کی صورت میں توانائی کی عالمی قیمتوں میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔ جمعہ کے روز اسرائیلی حملوں کے بعد تیل کی عالمی منڈیوں میں قیمتیں تقریباً آٹھ فیصد بڑھ گئیں مگراس جنگ کی طوالت یا ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز کی بندش اس کیلئے بد ترین منظرنامہ ثابت ہو سکتی ہے ۔ ایران اور عمان کے بیچ یہ سمندری گزرگاہ تیل اور گیس کی نقل و حمل کیلئے اہم ترین ہے کہ دنیا کا تقریباً 20 فیصد تیل اور قدرتی گیس کا ایک اہم حصہ بشمول ایل این جی اسی راستے سے گزرتا ہے۔ ایران اسرائیل جنگ کی صورت میں یہ خارج از امکان نہیں کہ ایران اس گزرگاہ کو بند کر سکتا ہے‘ جس کا اثر توانائی کی عالمی قیمتوں پر ہو گا۔ ایران اسرائیل تنازع ایسے وقت میں بھڑک اٹھا ہے جب دنیا پہلے ہی طویل جنگوں کی بدامنی کی گرفت میں ہے اور ان سے جان چھڑانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ یوکرین روس جنگ اس کی ایک مثال ہے جس کے اثرات یورپ کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ اس جنگ کا ایک فریق ہونے کے ناتے روس بھی اگرچہ اس سے خاصا متاثر ہوا ہے مگر اس جنگ نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ جنگوں کے اثرات متحارب فریقین تک محدود نہیں رہتے۔ صدر ٹرمپ نے اس جنگ کو سمیٹنے کے بڑے دعوے کیے اور اس کیلئے بہت امیدیں دلائیں مگر اس جانب کسی عملی پیش ر فت کے بجائے الٹا حالیہ ہفتوں کے دوران اس جنگ کی شدت میں اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ یوکرین کی جانب سے روس میں ڈرون حملوں کا ردِعمل سخت اور خوفناک رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے خطے کی بات کی جائے تو اسرائیلی جارحیت کا دائرہ فلسطین‘ لبنان‘ شام اور یمن تک پھیل چکا ہے۔ عالمی ادارے غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم پر چیخ رہے مگر جارحیت رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ ان حالات میں ایران پر حملے کی صورت میں اسرائیل نے جس جنگ کا آغاز کیا ہے اس کے نتائج خوفناک ہوں گے۔ ایران اسرائیل کو بھر پور جواب دیتا ہے‘ جس کا بظاہر امکان ہے‘یا نہیں دے پاتا‘ جو کہ بعض تجزیہ کاروں کی رائے ہے‘ہر دو صورتوں میں مشرقِ وسطیٰ میں اس جنگ کے اثرات تباہ کن ہوں گے۔ زیادہ اندیشہ یہ ہے کہ جنگ کے طول پکڑنے کی صورت میں خطے کی صورتحال خوفناک تبدیلیوں سے دوچار ہو گی۔ ان حالات میں عالمی اور علاقائی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ متحارب فریقین میں ٹھہراؤ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ایران کو یہ نفسیاتی اور اخلاقی برتری حاصل ہے کہ اس پر حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جبکہ وہ امریکہ کے ساتھ جوہری معاملات پر مذاکرات میں مصروف تھا مگر جمعہ کی رات ایران کی جانب سے اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے ایران نے کافی حد تک اپنا حساب برابر کر لیا۔ اگرچہ جنگوں میں فریق کے نقصان کا برابر ازالہ ممکن نہیں ہوتا لیکن مزید نقصان سے بچنے کیلئے جنگ بندی ضروری ہو جاتی ہے۔ اگر ایران اور اسرائیل بھی جنگ بندی پر آمادہ ہو جائیں تو یہ خطے اور دنیا بھر کیلئے بھی اور ہر دو ممالک کیلئے بھی فائدے میں ہے۔ اس سلسلے میں سعودی عرب‘ چین اور روس سے اہم کردار کی امید ہے‘ جنہوں نے اس حوالے سے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔