اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مالی سکت

ایسے وقت میں جب حکومت کی جانب سے ملک میں معاشی استحکام کے دعوے کیے جا رہے ہیں‘ فنانشل انکلوژن سروے کے نتائج تصویر کا کچھ اور ہی رخ دکھا رہے ہیں۔ سروے کے مطابق ملک کی 12 فیصد آبادی (لگ بھگ پونے تین کروڑ افراد) اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے قرض لینے پر مجبور ہے۔ سات فیصد پاکستانی صحت کے اخراجات کی مداور چھ فیصد بیروزگاری یا آمدن میں کمی کی وجہ سے قرض دار بنے ہیں۔ قرض لینے والوں میں 16 فیصد وہ افراد شامل ہیں‘ جو کسی جسمانی معذوری یا بیروزگاری کی وجہ سے کام کرنے سے قاصر ہیں‘اور محض علاج معالجے یا دیگر ذاتی ضروریات کیلئے قرض لینے پر مجبور ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف باعثِ تشویش ہے بلکہ حکومتی معاشی پالیسیوں پر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی ہے۔جب ریاست شہریوں کو صحت کی بنیادی سہولتیں مہیا کر سکے‘ نہ روزگار تو پھر معاشرتی توازن شدید بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے۔ حکومت کو اب مزید وقت ضائع کیے بغیر سنجیدہ اور پائیدار اقدامات کرنے چاہئیں۔ معاشی پالیسیوں کا ازسر نو جائزہ لیتے ہوئے عام آدمی کی خوشحالی کو بھی فوقیت دی جانی چاہیے۔ عوام کی قوتِ خرید میں اضافہ‘ روزگار کے وسیع مواقع‘ صحت و تعلیم کی بلا معاوضہ یا سستی سہولتیں اور مہنگائی پر قابو پانا ہی وہ حقیقی اصلاحات ہیں جن سے ایک متوازن اور مضبوط معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں