اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

عالمی امن کی سفارتی کوششیں

گزشتہ روز ایران اور اسرائیل میں جاری جنگ میں شدت آنے کے بعد اسے رکوانے کی عالمی سفارتی کوششوں میں تیزی آ گئی ہے۔ روس‘ چین اور برطانیہ کے علاوہ مختلف ممالک کی جانب سے فریقین سے صبر و تحمل اور فائر بندی کی اپیل کی گئی ہے۔ گزشتہ روز اسرائیل کے ایران کے فعال نیوکلیئر ری ایکٹر پر حملے کے دعووں نے مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں جنگ کی سنگینی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ جمعرات کے روز اسرائیلی فوج نے مغربی ایران میں بیلسٹک میزائل انفراسٹرکچر‘ اراک میں واقع خنداب جوہری ری ایکٹر اور تہران میں نطنز جوہری ری ایکٹر کو نشانہ بنایا جبکہ اسرائیلی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ایفی ڈیفرن کی جانب سے ایرانی شہر بوشہر کے جوہری مقام پر بھی حملے کا دعویٰ کیا گیا جس پر روس نے بوشہر ایٹمی پاور پلانٹ پر حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے چرنوبل جیسے سانحے کا خدشہ ظاہر کیا۔ چرنوبل دراصل یوکرین کا ایک مقام ہے جہاں اپریل 1986ء میں سوویت یوکرین کا ایک نیوکلیئر ری ایکٹر پھٹنے سے بدترین تباہی پھیلی تھی اور ماہرین کے مطابق تابکاری اثرات کے سبب 24 ہزار سال تک یہاں انسان آباد نہیں ہو سکتے۔ فعال نیوکلیئر ری ایکٹر پر میزائل حملوں سے ایسی تباہی بعید از قیاس نہیں۔ اگرچہ بعد میں اسرائیل کی جانب سے بوشہر پر حملے سے انکار کر دیا گیا مگر اسرائیل کے مذموم عزائم اب عیاں ہو چکے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ بندی کی سفارتی کوششوں میں تیزی آئی ہے اور روس نے اس حوالے سے ثالثی کی آفر کی جبکہ چین نے مذاکرات کو ہی مسائل کا واحد حل قرار دیتے ہوئے دونوں ملکوں سے فوری جنگ بندی کا کہا ہے۔ برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے فریقین سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کرتے ہوئے امریکہ کو بھی دانشمندی سے معاملات سنبھالنے کا کہا ہے۔ برطانوی وزیراعظم کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جبکہ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی میں کمی کیلئے واشنگٹن کا دورہ کر رہے ہیں اور دوسری جانب آج (جمعہ کو) برطانیہ‘ جرمنی اور فرانس کے وزرائے خارجہ جنیوا میں ایران کیساتھ جوہری پروگرام پر مذاکرات کرنے جا رہے ہیں۔ اس تنازع میں آگے کیا ہوتا ہے‘ اس کا زیادہ انحصار اس بات پر ہے کہ صدر ٹرمپ کیا قدم اٹھاتے ہیں۔ اب تک ٹرمپ انتظامیہ نے عملی طور پر جنگ سے باہر رہنے کی کوشش کی ہے اور صدر ٹرمپ نے گزشتہ روز سوشل میڈیا پر امریکی اور برطانوی میڈیا کی ان خبروں کی سختی سے تردید بھی کی کہ امریکہ نے ایران پر حملے کی اجازت دے دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسی خبریں دینے والوں کو علم ہی نہیں کہ ایران سے متعلق میرے خیالات کیا ہیں۔ خدا کرے کہ صدرِ امریکہ کے یہ خیالات امن پسندی‘ تحمل وبردباری اور سفارت کاری کے فروغ پر مبنی ہوں۔ قبل ازیں امریکہ اسرائیلی حملوں کو یکطرفہ کارروائی قرار دے کر ان سے لاتعلقی کا اظہار کر چکا۔ اس پالیسی کو برقرار رکھنے اور معاملے کو امن سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز جس طرح فریقین کی جانب سے ایک دوسرے پر میزائلوں کی بوچھاڑ کی گئی‘ یہ صورتحال دنیا کے امن کیلئے ایک ڈرائونا خواب ثابت ہو سکتی ہے۔ دنیا ابھی پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی المناک یادوں ہی سے نہیں نکل پائی‘ ایسے میں ایک نئی عالمی جنگ کا خیال ہی خوفزدہ کردینے والا ہے؛ لہٰذا ایران اور اسرائیل کے علاوہ اسرائیل کی پشتی بان طاقتوں کو بھی محتاط اور متحمل طرزِ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ عالمی امن کو لاحق خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے کشیدگی کم کرانے کی مؤثر اور مخلصانہ کوششیں کی جائیں اور بہر صورت یقینی بنایا جائے کہ یہ تصادم اب مزید طول نہ پکڑے۔متحارب ملکوں سمیت پوری دنیا کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ جنگوں سے مسائل کا حل نہیں نکلتا بلکہ یہ انہیں مزید سنگین بناتی ہیں۔ سفارتکاری اور مذاکرات ہی امن کی جانب بڑھنے کا راستہ ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں