اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

چینی کی درآمد کا فیصلہ

گزشتہ برس ساڑھے سات لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کے بعد اب حکومت کی جانب سے پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ برس چینی کی برآمد کی اجازت دیتے ہوئے وزارتِ غذائی تحفظ کا مؤقف تھا کہ ملک میں ضرورت سے زائد چینی موجود ہے لیکن اس تمام عرصہ میں چینی بحران برقرار رہا اور قلت کے سبب مقامی مارکیٹ میں اس کی قیمت 200روپے فی کلو تک جا پہنچی۔ اب چینی بحران مزید سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ وافر ذخائر کہاں گئے‘ جن کی بنیاد پر چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ سستے داموں چینی برآمد کرکے شوگر ملوں کو تو فائدہ پہنچایا گیا مگر ملک میں چینی بحران پیدا ہونے کا موقع دیا گیا اور اب جبکہ چینی کی قلت ہے اور قیمتیں قابو سے باہر ہو چکی ہیں تو حکومت عالمی منڈی سے مہنگے داموں چینی برآمد کرنے جا رہی ہے۔ ہر سال چینی بحران سے دوچار ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ پالیسی سازی میں سنجیدگی کا شدید فقدان ہے۔مہنگی درآمدی چینی نہ صرف عوام کو جیب پر اضافی بوجھ ثابت ہو گی بلکہ ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر پر بھی دبائو بڑھے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جن افراد‘ اداروں یا شوگر ملز کی وجہ سے ملک کو یہ نقصان اٹھانا پڑا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں