اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

بھارتی آبی جارحیت

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دی ہیگ میں نیٹو سربراہان کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جہاں ایران اسرائیل جنگ بندی پر تفصیلی بات چیت کی وہیں پاک بھارت جنگ بندی کا بھی ذکرکیا اور پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جنگ بندی کیلئے فوری رضامندی ظاہر کی تھی۔ 10 مئی کو جب امریکی مداخلت پر پاک بھارت جنگ بندی عمل میں آئی تو امریکی صدر نے دونوں ممالک میں تصفیہ طلب مسائل کو حل کرانے میں ثالثی کی پیشکش بھی کی تھی تاکہ پائیدار امن کو یقینی بنایا جا سکے مگر بھارت کی ہٹ دھرمی کے سبب اب تک دونوں ممالک میں دیرپا استحکام اور پُرامن مستقبل کے حوالے سے مذاکراتی دور کا آغاز نہیں ہو سکا اور دو طرفہ تعلقات میں وہ دبی چنگاریاں اب بھی موجود ہیں جو دوبارہ جنگ کے شعلوں کو ہوا دے سکتی ہیں۔ اس حوالے سے ایک اہم مسئلہ بھارت کی آبی جارحیت ہے۔ پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھارت کی طرف سے سب سے پہلے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کا اعلان کیا گیا تھا۔ دو ماہ سے زائد وقت گزر جانے کے باوجود نہ تو بھارت اس حوالے سے مذاکرات پر آمادہ ہے اور نہ ہی پاکستان کے حصے کے پانی میں رکاوٹیں ڈالنے سے باز آ رہا ہے بلکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائوں‘ چناب‘ جہلم اور سندھ پر جاری بھارتی آبی منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایات کی ہیں۔ خبروں کے مطابق متنازع رنبیر نہر پر کام کا آغاز کر دیا گیا ہے‘ جو دریائے چناب کو بھارتی ریاست راجستھان سے ملائے گی۔ اسی طرح پکل ڈل‘ کیرو‘ کاکوار اور رتلے منصوبوں پر بھی کام کی رفتار بڑھا دی گئی ہے۔ بھارت کی وزارتِ توانائی کی دستاویز کے مطابق جموں و کشمیر میں پن بجلی کی استعداد 3360میگاواٹ سے بڑھا کر 12 ہزار میگاواٹ کی جائے گی اور اس حوالے سے چار بڑے پن منصوبوں میں سے تین دریائے چناب اور اس کی ملحقہ نہروں پر تعمیر کرنے کا پلان ہے۔ایک طرف بھارت پاکستان کا پانی روکنے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے اور دوسری جانب اپنے متنازع منصوبوں پر جاری ورلڈ بینک کی کارروائی میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔ بھارت نے عالمی بینک کے غیر جانبدار ماہر‘ مائیکل لینو کو رتلے اور کشن گنگا ڈیم پر تنازعات میں ثالثی کی کارروائی روکنے کی درخواست کی ہے۔ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس بھارتی اقدام کی مخالفت کی گئی ہے تاہم بھارت کی جانب سے عدم تعاون کا رویہ اپنایا جا رہا ہے۔ یہ بھارتی رویہ دونوں ممالک کے تنازعات کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔ پاکستان 24 اپریل کو قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں یہ بات واضح کر چکا ہے کہ سندھ طاس معاہدے میں یکطرفہ طور پر پیچھے ہٹنے کی کوئی شق موجود نہیں اور اگر بھارت کی جانب سے پاکستان کے پانی کو روکنے کی کوشش کی گئی تو پاکستان اسے اعلانِ جنگ تصور کرے گا۔ سندھ طاس معاہدے کو عملاً معطل کر کے بھارت ایک ایسے حساس معاملے کو چھیڑ رہا ہے۔ پانی کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے بھارتی اقدام نے خطے کے امن کیلئے سنگین خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ خدشہ ہے کہ اگر اس کا فوری سدباب نہ کیا گیا اور پانی کے معاملات پر بھی سیاست غالب آگئی تو یہ معاملہ خطے میں بڑی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ موجودہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ اقوام متحدہ‘ عالمی طاقتیں اور علاقائی تنظیمیں بالخصوص عالمی بینک‘ آگے بڑھیں اور بھارت پر دباؤ بڑھائیں تاکہ وہ ایسے اقدامات سے باز رہے جو خطے میں عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔ امریکی صدر کو پاک بھارت جنگ بندی کا کریڈٹ جاتا ہے مگر جب تک تصفیہ طلب مسائل کا حل نہیں نکلتا دیرپا اور پائیدار امن کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں