موسمی تغیرات اور ہماری تیاری
ملک میں برسات ابھی پوری طرح شروع نہیں ہوئی مگر بارشوں سے ہونے والی تباہی خوفناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے (این ڈی ایم اے) کے مطابق پچھلے چار دنوں کے دوران ملک میں بارشوں کے نتیجے میں 57 افراد جاں بحق اور 99 زخمی ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ جانی نقصان سیلاب اور مکان گرنے کے نتیجے میں ہوا۔ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمارے موسموں میں غیر معمولی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ بارشوں کے معمول بھی متاثر ہوئے ہیں اور درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے‘ مگر ان ماحولیاتی تغیرات کو سمجھنے اور ان کے مطابق خود کو ڈھالنے کیلئے جو کچھ کیا جانا ضروری ہے وہ دکھائی نہیں دیتا۔ نتیجتاً موسمی تبدیلیوں کا جبر اور اس کے نتیجے میں ہونے والا نقصان ہر سال بڑھتا جا رہا ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ گلیشیرز کے پگھلنے کا عمل تیز ہو چکا ہے‘ گلیشیر پگھلنے سے جھیلیں بنتی اور جب یہ جھیلیں پھٹتی ہیں تو بڑے پیمانے پر سیلاب کا سبب بنتی ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں گلیشیر جھیلیں پھٹنے سے آنے والے سیلاب اب معمول بنتے جا رہے ہیں جو کہ بنیادی ڈھانچے‘ املاک اور معاش کیلئے شدید نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں یہ واقعات چند برس پہلے کے مقابلے میں دو سے تین گنا بڑھ چکے ہیں۔ اسی طرح کلاؤڈ برسٹ اور شدید ژالہ باری کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور ہر برس کہیں نہ کہیں ایسے شدید موسمی حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں کہ بارشوں اور ژالہ باری کے سابقہ ریکارڈ ٹوٹ جاتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے ان مظاہر کو سمجھنا اور ان کیساتھ مطابقت پیدا کرنا بقا کا تقاضا ہے۔ حالیہ دنوں پری مون سون بارشوں میں غیر معمولی جانی ومالی نقصان یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا تعمیراتی ڈھانچہ معمولی بارشوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بھی نہیں۔ تعمیراتی معیار کو بہتر اور قواعد وضوابط پر عمل یقینی بنا کر ناموافق موسمی واقعات میں انسانی جانوں اور املاک کا تحفظ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے عوامی آگاہی کے بہتر انتظامات کی بھی ضرورت ہے جو نقصانات سے بچاؤ میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ شدید موسمی حالات میں بہت سا جانی نقصان صرف آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ لوگوں کو موسموں کی شدت اور ممکنہ خطرات کا علم نہیں ہوتا اور لاعلمی میں غلط فیصلہ کر بیٹھتے ہیں۔ ان حالات میں اگر حکومتیں بروئے کار آئیں تو نقصان میں کمی یقینی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہنگامی حالات میں مدد فراہم کرنے والے اداروں کی استعداد کار بڑھانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ ہمارے ہاں اس سلسلے میں بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے۔ اگرچہ پچھلے چند برسوں میں ان اداروں کو جدید خطوط پر استوار کئے جانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے تاہم ہنگامی حالات میں بڑھتا ہوا جانی نقصان ان اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ حالیہ دنوں دریائے سوات کے کنارے پیش آنے والا سانحہ اس سلسلے میں ایک کیس سٹڈی ہے کہ ہنگامی حالات کیلئے قائم کیے گئے ادارے اپنے کام کیلئے کتنے تیار ہیں۔ یہ مانا جاتا ہے کہ اچانک آنے والے پانی کے ریلے میں پھنسے افراد کو بروقت امداد پہنچ جاتی تو یہ جانیں بچ سکتی تھیں مگر ایسا نہ ہو سکا اور یہ اندوہناک حادثہ پیش آیا۔ عوامی آگاہی کے اقدامات کے حوالے سے بھی یہ غور طلب ہے کہ دریا کنارے ایسے انتظامات یا آگاہی کا بندوبست ہوتا تو سیاحوں کو خوفناک رسک سے روکا جا سکتا تھا۔ اگر اقدامات میں بہتری نہ آئی تو نقصان کا یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔ اس لیے موسمی تغیرات کے نتیجے میں جنم لینے والے حادثات کو تنبیہ سمجھنا چاہیے اور آنے والے وقت میں ایسے حادثات سے بچنے کا بندوبست کرنا چاہیے اور یہ تیاری ہمہ جہت ہونی چاہیے۔ موسمی تبدیلیوں کے خطرات سے بچنے کے اقدامات ناگزیر ہیں‘ حکومتی سطح پر بھی اور انفرادی سطح پر بھی۔