سیاسی رویوں میں تبدیلی ضروری
سپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے ایوان میں ہنگامہ آرائی پر ارکانِ صوبائی اسمبلی کے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کرنے کے عمل نے ایک نئی سیاسی بحث کو جنم دیا ہے۔ 27 جون کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کی طرف سے شور شرابہ کیا گیا تھا جبکہ ایوان میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے تھے۔ اس پر سپیکر صوبائی اسمبلی نے اپوزیشن کے 26 ارکان کی رکنیت معطل کر دی تھی جبکہ اپوزیشن ارکان کی نااہلی کیلئے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ قبل ازیں 16جون کے اجلاس میں ہنگامہ آرائی کرنے والے دس اراکین پر 20لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔ گزشتہ روز سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے دفتر میں ریفرنس جمع کرایا‘ جس کے متن میں کہا گیاکہ ایوان میں ہنگامہ آرائی‘ بدتمیزی اور سپیکر کی رولنگ کو نظر انداز کرنے پر اراکین کے خلاف کارروائی کی گئی۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے سپیکر پنجاب اسمبلی کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن لوگوں نے آئین کے تحت اٹھائے گئے حلف کی پاسداری نہیں کی‘ انہیں ہاؤس کا رکن رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن نے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے اسے اپوزیشن کے حقِ احتجاج کو سلب کرنے کے مترادف قرار دیا اور اسے ہر فورم پر چیلنج کرنے کا بھی اعلان کیا۔ سپیکر پنجاب اسمبلی کے دائر کردہ ریفرنس کے مستقبل کا فیصلہ تو الیکشن کمیشن ہی کرے گا مگر اس سے سیاسی تلخی بڑھنے کی توقع بے جا نہیں ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ ایسے معاملات میں ایوان کے تقدس اور آئین کی بالادستی سے زیادہ سیاسی مفادات مقدم ہوتے ہیں اور اسی لیے مخالفین کے خلاف یہ سمجھ کر کارروائی کی جاتی ہے کہ اس گڑھے میں صرف وہی گریں گے مگر تاریخ شاہد ہے‘ ہماری ملکی تاریخ تو خاص طور پر‘ کہ دن پلٹنے اور اقتدار کی میز گھومنے کے بعد مخالفین کے خلاف کیے گئے اقدامات ہر سیاسی جماعت کو خود بھی بھگتنا پڑتے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی تحقیق طلب امر ہے کہ کیا ایوان میں ہنگامہ آرائی‘ ہاتھا پائی اور توڑ پھوڑ میں صرف اپوزیشن کے ارکان ملوث تھے؟ بہت سے مناظر کیمروں میں ریکارڈ ہو چکے مگر حکومتی بینچوں کو کلین چٹ دے کر صرف اپوزیشن کے خلاف ریفرنس سے اس کارروائی پر سوالات کا اٹھنا فطری ہے۔ اس سارے قضیے کا ایک اہم پہلو ایوان کا تقدس ہے‘ جس پر ہرگز کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا اور یہ امر ذہن نشین رہے کہ آج جو معیار مخالفین کیلئے مرتب کیا جائے گا‘ کل کو وہی حکومت پر بھی لاگو ہو گا۔ آج اپوزیشن کیلئے سخت معیار قائم کرنے والی حکومتی جماعت کل کو خود بھی اس شکنجے کی زد میں آ سکتی ہے۔ سیاست کا یہ کھیل کوئی بھی رنگ دکھا سکتا ہے۔ بہرکیف یہ بات تو یقینی ہے کہ ایوان کا تقدس پامال کرنے والی سیاسی بداخلاقی کا کوئی مناسب اور پائیدار حل تو نکلنا ہی چاہیے۔ جب تک یہ نہیں ہو گا جمہوری عمل توانا نہیں ہو سکتا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ممکن ہے سیاسی اقدار کی پامالی کا یہ راستہ بند ہو جائے مگر سیاسی رہنمائوں کو خود بھی اس کا تہیہ کرنا ہو گا۔ الیکشن کمیشن یا عدالتی احکامات سے زیادہ فی الوقت اس امر کی ضرورت ہے کہ سیاسی رہنما اپنے رویوں میں برداشت‘ تحمل اور بردباری کو جگہ دیں۔ وطنِ عزیز کو اس وقت سیاسی ہم آہنگی کی جتنی ضرورت ہے‘ اتنی پہلے کبھی نہ تھی اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی بہتر صورت یہی ہو سکتی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔الیکشن کمیشن اور عدالتیں اس سلسلے میں جو احکامات دیں گی اور آئین وقانون کی جو تشریح کی جائے گی‘ وہ ملک کے جمہوری عمل پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ الیکشن کمیشن میں دائر اس ریفرنس کا فیصلہ تو جلد ہو جائے گا مگر سیاسی تلخی‘ جو ہماری صفوں میں در آئی ہے‘ اس کا خاتمہ کیسے ہو گا‘ سیاسی قیادت کے رویوں کی تبدیلی کیونکر ہو گی؟ اس کیلئے سیاسی ماحول میں کایا کلپ کی ضرورت ہے۔