علاقائی تعاون اور ترقی کے امکانات
وزیراعظم شہباز شریف نے اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جیو پولیٹکل تناؤ کے پیش نظر علاقائی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔ علاقائی ممالک کی اس اہم تنظیم کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ رکن ممالک اس پلیٹ فارم سے تجارتی فروغ‘ اقتصادی تعاون‘ علاقائی وسائل کے بہتر استعمال‘ تجارتی سہولتوں اور خطے میں پائیدار اقتصادی ترقی کیلئے اجتماعی کوششیں کریں۔ جنوبی ایشیا‘ وسط ایشیا‘ مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے سنگم پر واقع اس تنظیم کے رکن ممالک اپنے محل وقوع‘ وسائل اور مارکیٹ کے اعتبار سے ایسا اقتصادی بلاک بناتے ہیں جس میں ترقی کے نمایاں امکانات ہیں۔ ای سی او میں توانائی اور تجارتی راہداری بننے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری‘ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور ٹرانس کیسپین ٹریڈ رُوٹ اس خطے میں علاقائی رابطے اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے والے منصوبے ہیں۔ ای سی او خطے کے ممالک نہ صرف توانائی کے وسائل سے مالا مال ہیں بلکہ زراعت‘ معدنی اور سمندری وسائل بھی وافر دستیاب ہیں اور بڑھتی ہوئی کنزیومر مارکیٹ اس بلاک کی معیشت کیلئے عمل انگیز کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ ان میں سے ہر ملک کسی نہ کسی لحاظ سے دوسرے کی معیشت کو مہمیز کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ کہیں توانائی کے وسائل بھرپور ہیں اور کہیں زرعی پیداوار‘ کہیں ہنرمند افرادی قوت ہے تو کہیں صنعتکاری کے امکانات۔ مگر یہ سب کچھ ہونے کے باوجود دس رکنی اقتصادی تعاون تنظیم کے ممالک میں وہ باہمی رابطہ کاری اور معاشی ترقی کی ہمہ جہت کاوش نظر نہیں آتی۔ ای سی او بلاک میں زمینی روابط کے وسائل کو ترقی دینے میں بظاہر کوئی ناقابلِ عبور رکاوٹ نہیں مگر ایسی کوئی پیش رفت عملی صورت اختیار نہیں کر سکی جو ان ممالک کو ایک دوسرے سے جوڑنے میں مدد کرے۔ ای سی او کی پیشرو‘ پاکستان‘ ایران اور ترکی کی علاقائی تعاون تنظیم (آر سی ڈی) کے تحت رکن ممالک میں ریلوے نیٹ ورک کو فروغ دیا گیا‘ صنعت اور بینکنگ کے شعبے میں بھی اقدامات ہوئے مگر اس کے باوجود کہ ای سی او کو قائم ہوئے 40برس ہو چکے ہیں ‘اس تنظیم کے رکن ممالک میں ترقی یافتہ زمینی رابطے کا فقدان ہے اور یہی حالات دیگر شعبوں میں ہیں۔ موجودہ دور میں پاک چین اقتصادی راہداری اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا انفراسٹرکچر ای سی او رکن ممالک کے مابین زمینی رابطے کے خلا کو پُر کر سکتا ہے تاہم حکومتی سطح پر عمل کی رغبت کا خلا صرف مشترکہ ترقی کے امکانات کی اپروچ سے پُر ہو سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا‘ وسط ایشیا‘ مشرقِ وسطیٰ اور یوریشیائی خطے کے ممالک کیلئے مشترکہ ترقی کے امکانات لامحدود ہیں اور یہی اس خطے کے داخلی اور بیرونی خطرات سے تحفظ کیلئے ڈھال بن سکتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کی تازہ صورتحال اور حالیہ ایران اسرائیل تصادم کی صورت میں کشیدگی کے پھیلاؤ کے امکان تشویشناک ہیں۔ یہ صورتحال ایسے خطرے کی نشاندہی کرتی ہے جو توسیع پسندی اور تہذیبی تصادم کا رجحان رکھتا ہے۔ اس سے دفاع صرف عسکری محاذ پر نہیں فکری‘ ثقافتی اور علاقائی سطح پر بھی ضروری ہے‘ جو علاقائی اتحاد کا تقاضا کرتا ہے۔ ای سی او اور دیگر علاقائی تنظیمیں خطے کے ممالک کو بہترین پلیٹ فارم مہیا کرتی ہیں جو ہمیں عوامی‘ معاشی اور ثقافتی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کر سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان پلیٹ فارمز کو ان کے مقاصد کے مطابق بروئے کار لایا جائے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے علاقائی تعاون کے فروغ کی جانب متوجہ کر کے علاقائی تنظیموں کے خاموش پانی میں کنکر پھینکا ہے۔ اگر رکن ممالک کی سطح پر کوئی تحرک پیدا نہ ہوا تو یہ تجویز بھی ماضی کا قصہ بن جائے گی اور کچھ وقت میں بھلا دی جائے گی‘ مگر اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس خطے کے ممالک کی تنظیموں کی کارکردگی حسب سابق برائے نام رہے گی اور ترقی کے امکانات بدستور ادھورے رہیں گے۔