اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

موسمیاتی تغیرات، نئے چیلنجز

وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کے مختلف علاقوں میں ممکنہ سیلابی صورتحال کے پیش نظر این ڈی ایم اے‘ ریسکیو اداروں اور انتظامیہ کو فوری حفاظتی انتظامات واقدامات نافذ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے باہمی تعاون کو مزید مربوط بنانے اور صوبائی حکومتوں اور متعلقہ اداروں میں قریبی روابط کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے یہ احکامات طوفانی بارشوں کے نئے انتباہ کے بعد جاری کیے گئے ہیں۔ اس وقت مسلسل بارشوں سے دریائے سندھ کے زیریں اضلاع میں طغیانی بڑھنے کا خدشہ ہے اور محکمہ موسمیات کی جانب سے فلیش فلڈ اور اربن فلڈ کی وارننگ دی گئی ہے۔ پنجاب حکومت نے بھی دریائے جہلم‘ دریائے چناب‘ دریائے راوی اور ڈیرہ غازی خان میں رود کوہیوں میں فلیش فلڈنگ اور بڑے شہروں میں اربن فلڈنگ کا الرٹ جاری کرتے ہوئے عوام کو محفوظ رہنے اور دریا کے پاٹ سے انخلا کی ہدایات جاری کی ہیں۔این ڈی ایم اے کے مطابق 27جون سے اب تک 79 افراد بارشوں اور ان کے سبب ہونے والے حادثات سے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 140 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ گزشتہ دو ہفتے میں پری مون سون بارشوں کی تباہ کاریوں نے نہ صرف متعلقہ محکموں کی کارکردگی پر سوالات کھڑے کیے ہیں بلکہ یہ بھی عیاں کر دیا ہے کہ ہمارا ازکارِ رفتہ نظام موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب ابھرنے والے نئے چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ پاکستان میں سالانہ تین سو سے ایک ہزار ملی میٹر تک بارشیں ہوتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اب بارشوں کی مقدار میں اضافہ ہو رہا مگر ان کا دورانیہ سمٹ رہا ہے۔ 2022ء کے سیلاب کے بعد 2023ء میں مجموعی سالانہ اوسط سے16 فیصد زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔ 2024ء میں یہ اضافہ 24 فیصد زیادہ تھا۔ باوجود اسکے کہ ستمبر 2024ء سے مارچ 2025ء تک مجموعی طور پر معمول سے 40 فیصد کم بارشیں ہوئیں‘ محکمہ موسمیات 2025ء میں بھی معمول سے زیادہ بارشوں کا انتباہ جاری کر چکا ہے۔ پنجاب میں 50 سے 60 فیصد جبکہ بلوچستان میں 70 سے 80 فیصد اضافی بارشوں کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے اور پری مون سون بارشوں نے اس خدشے کو درست ثابت کیا ہے۔ پری مون بارشوں ہی سے ملک کا سب سے بڑا ڈیم تربیلا مکمل طور پر بھر چکا اور سپل وے کھول دیے گئے ہیں۔ دیگر ڈیموں کی بھی یہی صورتحال ہے۔ ہمارے ہاں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بہت محدود ہے اور اس کی بڑی وجہ آبی ذخائر کی کمی ہے۔ مناسب آبی ذخائر نہ ہونے کے سبب ہی بارشوں کا پانی شہری و رہائشی علاقوں میں گھس جاتا اور تباہی مچا دیتا ہے۔ پاکستان کی مجموعی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت محض تیس دن ہے‘ جو عالمی اوسط 220 دن سے بہت کم ہے۔ پاکستان میں سالانہ بارشوں کا 9 سے 10 فیصد پانی ہی ذخیرہ کیا جاتا اور ہرسال ساڑھے تین کروڑ ایکڑ فٹ بارشی پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ بارشوں کا پیٹرن تبدیل ہونے کے سبب اب سارا سال بارش ہونے کے بجائے مون سون کے مختصر سپیل میں پورے سال کا پانی برس جاتا ہے اور چند ہفتے اربن فلڈ اور فلیش فلڈ اور باقی عرصہ خشک سالی میں گزرتا ہے۔نئے موسمیاتی پیٹرن کے یہ مناظر دراصل ہمیں اپنے طرزِ حیات میں جوہری تبدیلی کی دعوت دے رہے ہیں۔ ہمیں جہاں اپنے موسمیاتی‘ ریسکیو اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کی ضرورت ہے‘ وہیں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ بھی ناگزیر ہو چکا ہے۔ پاکستان جیسا ملک‘ جہاں معیشت کا دار ومدار ہی زراعت پر ہے‘ پانی ضائع کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ موسمیاتی تغیرات نے اس ضرورت کو مزید اجاگر کیا ہے کہ ملک میں نئے آبی ذخائر تعمیر کیے جائیں تاکہ اضافی پانی کو تادیر محفوظ کیا جا سکے۔ موسمیاتی تغیرات کا فوری حل تو نہیں نکالا جا سکتا مگر ان کے اثرات سے نمٹنے کی پیش بندی ضرور کی جا سکتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں