آبادی کا بے ہنگم پھیلائو
آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یومِ آبادی منایا جا رہا ہے جس کا مقصد بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل کو کم کرنے اور پائیدار ترقی کے اہداف پر توجہ مرکوز کرانا ہے۔ اس وقت دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے تجاوز کر چکی ہے اور پاکستان 25کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ دنیا کا پانچواں گنجان آباد ملک ہے مگر آبادی کا یہ بوجھ ملکی وسائل کیلئے ایک بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔ تیز رفتاری سے بڑھتی آبادی نہ صرف روز مرہ کی زندگی کو متاثر کر رہی ہے بلکہ سماجی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی شرح آبادی بہت سے معاشی و سماجی مسائل کی جڑ ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی شرح غربت‘ چائلڈ لیبر‘ صحت و تعلیم کے کمتر معیار‘ شہری پھیلائو‘ زرعی تنزل اور غذائی مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔ آبادی کے بے ہنگم پھیلائو کے سبب ہی دستیاب وسائل ہماری ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی بڑھتی آبادی کے مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کے دو ہی بڑے مسائل ہیں؛ موسمیاتی تبدیلیاں اور بڑھتی ہوئی آبادی۔ بڑھتی آبادی سے ملکی وسائل پر دباؤ بڑھ رہا ہے‘ پائیدار ترقی کیلئے شرح آبادی پر قابو پانا ضروری ہے اور حوالے سے صوبائی حکومتوں کو مزید فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو آزادی کے وقت ملکی (مغربی پاکستان کی) آبادی تین کروڑ بیس لاکھ تھی‘ 1971ء تک یہ ساڑھے چھ کروڑ تک پہنچ گئی تھی‘ 1998ء کی مردم شماری میں آبادی تیرہ کروڑ 20 لاکھ تھی جبکہ 2023ء کی ڈیجیٹل مردم شماری میں ملکی آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ بتائی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس میں 2.55 فیصد کی سالانہ شرح سے اضافہ ہو رہا؛ یعنی 55 لاکھ نفوس سالانہ۔ اس اوسط سے اگر دیکھا جائے تو گزشتہ دو سال میں پاکستان کی آبادی میں مزید ایک کروڑ کا اضافہ ہو چکا اور یہ پچیس کروڑ افراد سے بھی متجاوز ہو چکی۔ اقوام متحدہ سمیت متعدد ادارے یہ خدشہ ظاہر کر چکے کہ اگر پاکستان کی آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو 2030ء تک یہ 30کروڑ ہو چکی ہو گی جبکہ 2047ء میں قیام پاکستان کے صد سالہ موقع پر ملکی آبادی 50 کروڑ کے ہندسے کو چھو رہی ہو گی۔ یہاں بجا طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا تعلیم وصحت اور دیگر بنیادی ضروریاتِ زندگی کے ملکی وسائل میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہو رہا ہے؟ ہرگز نہیں! اس وقت دو کروڑ 51لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ پانچ برس سے کم عمر لگ بھگ 40فیصد بچے سٹنٹڈ گروتھ کا شکار ہیں۔ یہ بچے‘ جو ملک کا مستقبل ہیں‘ غذائی قلت کا شکار ہیں مگر ان کے والدین ان کی غذا کا بندوبست کرنے سے قاصر ہیں۔ وجہ‘ قوتِ خرید میں کمی اور اجناس کی گرانی۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں شرح غربت 44.7 فیصد کی بلند سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح ایک بڑا مسئلہ بیروزگاری کی شرح ہے‘ جو خطرناک حد تک بلند ہے۔ چند آزاد ذرائع کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 22 فیصد ہے؛ مردوں میں لگ بھگ تیس فیصد۔ ہر سال 15 سے 20 لاکھ نئے نوجوان مارکیٹ میں آ رہے ہیں مگر ہمارا معاشی حجم اور معاشی سٹرکچر انہیں روزگار فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ ان تمام مسائل کی جڑ کہیں نہ کہیں بڑھتی شرح آبادی میں پیوست ہے کیونکہ آبادی میں اضافے کے مقابلے میں قومی وسائل میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بیروزگاری‘ غربت‘ مہنگائی میں اضافہ اور تعلیم و صحت کے معیار کی تنزلی ہمارے سماج کے بنیادی مسائل بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ پائیداراور خوشحال مستقبل اور یکساں ترقی کیلئے آبادی میں ہو رہے اس بے ہنگم اضافے کو کنٹرول کرنا ہوگا کیونکہ مناسب خوراک‘ اچھی تعلیم اور بہتر صحت ہر فرد کا بنیادی حق ہے اور یہ حق اُسی صورت حاصل ہو سکے گا جب وسائل اور آبادی میں توازن قائم ہو گا۔ وفاق کو صوبوں کے ساتھ مل کر اس حوالے سے کثیر جہتی جامع حکمت عملی پر کام کرنا چاہیے۔