اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مزاحمت نہیں مذاکرات

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے معطل اراکین کے خلاف ریفرنس کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کی مذاکراتی کمیٹیوں کا تشکیل پاناخوش آئند ہے۔ 27 جون کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے خطاب کے دوران اپوزیشن کے اراکین کی جانب سے ہلڑ بازی سے پیدا ہونے والا تنازع خاصی شدت اختیار کر چکا تھا جس کے نتیجے میں سپیکر پنجاب اسمبلی نے اپوزیشن کے 26اراکین کو پندرہ اجلاسوں کیلئے معطل کر دیا اور ان کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان میں نااہلی کے ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ بھی کرلیامگر جمعے کے روز اپوزیشن کے معطل ارکان کی سپیکر سے ملاقات برف پگھلنے کا سبب بنی۔ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے مذاکرات کے آغاز کی تجویز دی گئی جسے سپیکر ملک محمد احمد خان نے خوش آئند قرار د یا۔ اسی روز فریقین کی کمیٹیوں کیلئے نام تجویز ہو گئے اور گزشتہ روز یہ مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل پا گئیں جن کا پہلا اجلاس آج سہ پہر متوقع ہے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی اور حکومت و حزب اختلاف کے ارکان نے اس پارلیمانی تنازعے کو حل کرنے کا صائب راستہ اختیار کیا ہے۔ یہی جمہوریت کا حُسن ہے کہ اس میں فیصلے باہمی مشاورت سے کیے جاتے ہیں ‘ شنوائی کا موقع دیا جاتا ہے اور تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر سپیکر حزبِ اختلاف کے ارکان کی نااہلی کے ریفرنس پر عمل کرگزرتے تواس سے قطع نظر کہ اس اقدام کی قانونی حیثیت بارے عدالتیں کیا فیصلہ دیتیں‘ مگرجمہوریت کیلئے اس اقدام کو ہضم کرنا کافی مشکل ہو جاتا۔ یہ احساس حکومتی جماعت کے سنجیدہ حلقوں میں بھی تھا اور بعض اعلیٰ عہدیداروں نے اس کا اظہار بھی کیا۔ حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر عہدیداروں نے بھی اس حوالے سے اپنے تحفظات ظاہر کیے تھے ۔ پارلیمانی ایوانوں میں اراکین کو اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار ضرور کرنا چاہیے مگر یہ مد نظر رہنا چاہیے کہ یہ ایوان ملک میں اقتدار کی علامت ہیں‘ اور معزز اراکین اپنے اور ایوانوں کی توقیر کے خود ذمہ دار ہیں۔ منتخب اراکین عوامی مینڈیٹ کے ساتھ ان ایوانوں میں بیٹھتے ہیں اس لیے ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ یہاں عوامی اور ملکی مفاد کے معاملات ہی ترجیح اول رہیں نہ کہ اسمبلی اجلاس کو اکھاڑا سمجھ لیا جائے جہاں مخالف سیاسی جماعتوں کو رگیدنا ہے۔جائز شکایات شائستہ زبان میں کہنے پر کسی کو اعتراض نہ ہو گا ‘ مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ہلڑ بازی‘ ناشائستہ جملے ‘ بازاری زبان اورنازیبا اشارہ بازی ہوتی ہے ۔ اسمبلیوں میں اراکین کو حاصل اظہار کی آزادی کے باوجود کوئی مہذب معاشرہ اس ’کھلے پن‘ کی اجازت نہیں دے سکتا۔ حکومت اور حزب اختلاف ‘ دونوں ہی پارلیمانی نظام کے اہم فریق ہیں۔ پارلیمانی امور کا ہموار طریقے سے چلنا دونوں کے تعاون پر منحصر ہے۔ معیاری جمہوریت حکومت اور حزب اختلاف کے امتزاج سے وجود پاتی ہے۔ یہ امتزاج جتنا متوازن ہو گا جمہوریت اسی قدر حسین ہو گی۔ سپیکر پنجاب اسمبلی اور حزب اختلاف کے اراکین جس جانب متوجہ ہوئے ہیں یہ ایک احسن پیش رفت ہے۔ انہیں چاہیے کہ ماضی کی رنجش اور ناخوشگوار تجربات سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور اسمبلی میں ایسا ماحول بنائیں جس میں دونوں جانب کے اراکین کیلئے احترام پایا جائے۔ اسی صورت ملک میں جمہوری نظام کی بہتر ی اوراستحکام ممکن ہے۔ ہر فریق اپنی ضد پر اڑا رہے ‘ دوسرے کیلئے لحاظ‘ لچک اوربرداشت کا جذبہ ختم ہو جائے تو سیاسی ماحول کیونکر خوشگوار ہو سکتا ہے؟ منتخب اراکین کو وہ ذمہ داری بھی یاد رکھنی چاہیے جو عوام کے ووٹ کی صورت میں ان پر عائد ہے۔ اب جبکہ حکومت کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی کے نام دیے جاچکے ہیں حزب اختلاف پر یہ اخلاقی ذمہ داری بدرجہ اتم ہے کہ وہ بھی اپنے خلوص کا ثبوت دے اور مذاکراتی پہل کو ممکن کر دکھائے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں