اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سیلاب کا اُمڈتا خطرہ

گزشتہ روز مون سون بارشوں کے سبب دریائے سندھ میں تونسہ بیراج پر درمیانے درجے کے سیلاب کے سبب کئی بستیاں زیر آ گئیں۔ گدو اور سکھر بیراج پر بھی نچلے درجے کا سیلاب ہے۔ راجن پور میں رود کوہیوں میں طغیانی سے درجنوں دیہات زیر آب آ گئے اور فصلیں تباہ ہو گئیں۔ تونسہ کے علاوہ کوہ سلیمان اور ڈیرہ غازی خان میں بھی سیلاب کی وارننگ جاری کی گئی ہے۔ بلوچستان میں بھی متعدد اضلاع میں بارشوں کے باعث نشیبی علاقے زیر آب آ گئے۔ ماہرینِ موسمیات کی جانب سے مزید چند دن شدید بارشوں‘ اربن اور فلیش فلڈنگ کی وارننگ جاری کی گئی ہے۔ محکمہ موسمیات نے کئی ماہ قبل ہی معمول سے زیادہ بارشوں کا انتباہ جاری کرتے ہوئے متعلقہ محکموں کو تیاری کی ہدایات کی تھیں مگر گزشتہ چند روز میں بارشوں سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیں اور انتظامی سطح پر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے انتظامات کو دیکھیں تو ایسا نہیں لگتا کہ حکام نے اس الرٹ کو سنجیدگی سے لیا تھا۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق 26 جون سے اب تک 111 افراد شدید بارشوں اور طغیانی کی نذر ہو چکے ہیں اور 212 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ‘ 40 افراد پنجاب میں جاں بحق ہوئے۔ انفراسٹرکچر اور زرعی نقصانات کی نوعیت کہیں زیادہ شدید ہے۔ اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ رواں سال مون سون بارشوں کا آغاز وقت سے قبل ہی ہو گیا اور ریکارڈ توڑ بارشیں زیریں علاقوں کیلئے قدرتی آفت ثابت ہوئی ہیں مگر یہ سب اتنا اچانک بھی نہیں تھا۔ گزشتہ کئی سال سے پاکستان کو شدید بارشوں‘ طغیانی اور سیلابی پانی کے مسائل کا سامنا ہے اور ہر سال ان سے نمٹنے کیلئے بلند بانگ دعوے اور اعلانات کیے جاتے ہیں مگر عملی طور پر کوئی اقدام نہیں کیا جاتا۔ تین سال قبل پاکستان کو اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب سے دوچار ہونا پڑا۔ ملک کے دو تہائی رقبے میں اس سیلاب نے اپنی طغیانی کے اثرات چھوڑے۔ 23 لاکھ سے زائد گھر‘ 30 ہزار سکول‘ دو ہزار طبی مراکز تباہ ہوئے اورتین کروڑ سے زائد افراد اس سیلاب سے متاثر ہوئے۔اس سیلاب سے نمٹنے کیلئے جہاں عالمی برادری کی توجہ موسمیاتی تبدیلیوں اور امداد کے وعدوں کی جانب مبذول کرائی گئی وہیں اندرونِ ملک دریائی راستوں کو صاف کرنے‘ نہروں‘ برساتی نالوں اور ندیوں کے پاٹ چوڑے کرنے اور ریور بیڈ سے تجاوزات ختم کرنے سمیت متعدد اقدامات کا اعلان کیا گیا مگر ان پر کس قدر عملدرآمد ہوا‘ وہ حالیہ واقعات سے ظاہر ہے۔ 2023ء اور 2024ء میں بھی مون سون میں مختلف علاقوں میں محدود سیلاب کا سامنا کرنا پڑا مگر طویل المدت اور دیرپا حل کے بجائے وقتی لیپا پوتی پر زیادہ توجہ دی گئی۔ کب تک ہم مون سون کے غیر معمولی سلسلے اور موسمیاتی تغیرات کو موردِ الزام ٹھہراتے رہیں گے‘ اب ہمیں اسے ’نیو نارمل‘ سمجھ کر آگے بڑھنا ہو گا۔ موسمیاتی تغیرات کے منفی اثرات سے بچائو کیلئے ہمیں ایک جامع پالیسی کی ضرورت ہے۔ 2018ء کی نیشنل واٹر پالیسی‘ 2023ء کی پانچ سالہ واٹر کنزرویشن سٹرٹیجی اور رواں سال مارچ میں اعلان کردہ واٹر ویژن میں متعدد ایسے اقدامات کا اعلان کیا گیا جن پر اگر بروقت عمل ہو جاتا تو آج سیلاب کے خطرات کئی گنا کم ہوتے۔ ہمارے پاس اب مزید وقت ضائع کرنے کی گنجائش نہیں ۔ ایک جانب بارشی پانی کو محفوظ کرنے کے منصوبوں میں تیزی لانی چاہیے اور دوسری جانب دریائوں اور ندی‘ نالوں کے روایتی راستوں کو وسیع کر کے مون سون میں پانی کی طغیانی کو کم کرنے کی کوششیں کرنی چاہئیں۔ یہ کام‘ ظاہر ہے اس وقت کرنے کے نہیں! مگر موجودہ صورتحال سے سبق تو سیکھا جا سکتا ہے۔ موسمی تغیرات اور بارشوں کا یہ نیا پیٹرن ہمارے لیے اگرچہ نیا اور ناموافق ہے مگر ان تغیرات میں پوشیدہ قدرت کی تنبیہ کو سمجھ کر چلیں تو ان حالات کیساتھ مطابقت قائم کرنا زیادہ مشکل نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں