چینی بحران کی حقیقت
گزشتہ سات ماہ کے دوران چینی کی قیمت میں 60روپے فی کلو تک اضافہ ہو چکا ہے اور اب یہ ملک کے بیشتر شہروں میں 190سے 210روپے کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔ عوام کو اس منافع خوری سے نجات دلانے کیلئے کوئی مؤثر اقدام کرنے کے بجائے حکومت نے چینی کی ایکس مل قیمت میں چھ روپے اضافہ کرکے یہ 165روپے فی کلو تک بڑھا دی۔ اس فیصلے کے بعد آزاد مارکیٹ میں چینی کی قیمت کو مزید پَر لگ گئے۔ چینی کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ گزشتہ سال تقریباً ساڑھے سات لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کا بعد شروع ہوا جو ابھی تک تھما نہیں۔گزشتہ برس اپریل‘ مئی میں چینی کی ایکس مل قیمت 133 روپے تھی‘جون میں چینی بحران کے بعد ایکس مل قیمت کو بڑھا کر 140روپے فی کلو کر دیا گیا‘ رواں سال رمضان المبارک میں چینی بحران کے بعد ایکس مل قیمت میں مزید 19روپے کا اضافہ کیا گیا مگر چینی کی قیمتیں اس کے باوجود مستحکم نہیں ہو سکیں۔ اب چار ماہ بعد‘ حکومت نے ایک بار پھر ایکس مل قیمت میں اضافہ کر دیا ہے۔اس اضافے کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ اس سے چینی بحران میں کمی آئے گی ‘ جس کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔الٹا قیمتیں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ گزشتہ تیرہ ماہ میں ایکس مل قیمت میں تین بار اضافے کے باوجود چینی کا بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اب حکومت نے چینی کی درآمد کا فیصلہ کیا ہے اور بتایا یہ جا رہا ہے کہ درآمدی چینی 249 روپے فی کلو کے حساب سے پاکستان پہنچے گی اور صارف کو 200روپے فی کلو بیچی جائے گی‘فی کلو 50 سے 55 روپے کا خسارہ سرکار کے حصے میں آئے گا۔دوسری جانب آئی ایم ایف نے چینی پرمجوزہ سبسڈی اور درآمد میں ٹیکس چھوٹ پر اعتراضات عائد کر دیے ہیں۔ شاید یہ آئی ایم ایف کے اعتراضات ہی کا نتیجہ ہے کہ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان نے تین لاکھ میٹرک ٹن چینی کی درآمد کا جو ٹینڈر جاری کیا تھا‘ چار روز بعد ہی اسے منسوخ کر کے اب 50 ہزار میٹرک ٹن چینی کی درآمد کا نظرثانی شدہ ٹینڈر جاری کیا گیا ہے۔ملک عزیز میں چینی بحران لاینحل صورت اختیار کر چکا ہے۔ یاد کریں تو پچھلے کئی سال سے یہ مستقل مسئلہ ہے ۔پہلے چینی کے کارخانہ داروں کی یقین دہانی پر چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جاتی ہے‘ پھر بحران پیدا ہوتا ہے جس پر قابو پانے کیلئے چینی درآمد کی جاتی ہے۔ اس ساری کارروائی میں ملک کے حصے سبسڈی کی مد میں بہت سا خسارہ اور عوام کے حصے چینی کی مہنگائی آتی ہے ۔ فائدہ چند مخصوص مل مالکان کا ہوتا ہے جو برآمد کرتے ہیں‘ یا ذخیرہ اندوزوں کا یا چینی کے درآمدکنندگان کا۔اگر حکومت چینی بحران ختم کرنا چاہتی ہے تو ذخیرہ اندوزی‘ کارٹلائزیشن‘ جعلی برآمدی اعدادوشمار اور امپورٹ سبسڈی کے نام پر ہونے والی لوٹ مار کے خلاف ایکشن لے‘ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو شفاف بنائے اور مارکیٹ کی حرکیات پر نظر رکھے۔ورنہ چینی کا بحران رہے گا۔