اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

ایس سی او، چیلنجز اور امکانات

شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحق ڈارنے دیرینہ تنازعات کے پُرامن حل‘ مذاکرات‘ سفارتکاری اور بین الاقوامی قانون‘ انصاف اور غیر جانبداری کے اصولوں کے مطابق حل پر زور دیا اور جارحیت کو پالیسی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شنگھائی سپرٹ ہمیں مکالمے‘ باہمی اعتماد اور منصفانہ وجامع عالمی نظام کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم ایشیائی ممالک کا ایک اہم ترین پلیٹ فارم ہے جس کی اہمیت میں وقت کیساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشی‘ عسکری اور افرادی قوت کے اعتبار سے یہ دنیا کی ایک سرکردہ علاقائی تنظیم ہے جس کے رکن ممالک دنیا کے ایک چوتھائی تیل کے ذخائر اور دوسرے معدنی وسائل سے مالا مال ہیں۔ یہ ممالک دنیا کی 41فیصد آبادی پر مشتمل ہیں اور عالمی جی ڈی پی میں ان کا حصہ 23فیصد۔ ایس سی او رکن ممالک کی مجموعی جی ڈی پی تقریباً 24.4ہزار ارب ڈالر بنتی ہے۔ یہ اعداد وشمار ایس سی او کی اہمیت اور اس کے روشن مستقبل کی دلیل ہیں۔ مگر دوسری جانب اس خطے کے چیلنجز بھی غیر معمولی ہیں۔ امن وامان کے خطرات‘ خطے کے زیادہ تر ممالک کو معاشی استحکام کی کوششوں میں در پیش چیلنجز اور رکن ممالک میں علاقائی تنازعات اس کی بڑی مثال ہیں۔ علاقائی تنازعات کی بات کی جائے تو مسئلہ کشمیر سر فہرست ہے جو صرف پاکستان اور بھارت ہی کا تنازع نہیں بلکہ چین بھی اس تنازعے کا ایک فریق ہے اور پچھلے کچھ برس میں چین اور بھارت میں سرحدی کشیدگی اور فوجی تصادم کے بڑھتے واقعات اس تنازع کی شدت کو واضح کرتے ہیں۔ علاقائی ممالک کے برعکس بھارت کا مغرب کی جانب غیر متوازن جھکاؤ اور خود کو چین کا مدمقابل ظاہر کرنے کا بھارتی خبط ایشیائی خطے میں اعتماد کے بحران کا سبب ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا ایک بنیادی مقصد دہشت گردی‘ علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ کوشش اور ان خطرات سے نمٹنے کیلئے فوجی تعاون اور انٹیلی جنس شیئرنگ ہے‘ مگر بھارتی رویہ اور کردار ایس سی او کے اس نصب العین کے سراسر اُلٹ ہے۔ پاکستان میں بھارتی سپانسرڈ دہشت گردی اور بھارت کی جانب سے دراندازی کے واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ بھارت ایس سی او کے بنیادی مقاصد کو سبوتاژ کر رہا ہے۔ بھارت کا یہی رویہ برکس میں بھی ہے۔ وہ ایک طرف برکس کا حصہ ہے لیکن دوسری طرف مغرب کی خوشنودی کیلئے چین کے خلاف سازش‘ عداوت اور چینی قیادت والے علاقائی پلیٹ فارمز کو ناکام اور غیر مؤثر کرنے کی سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔ بھارت کے اس کردار پر اسے برکس کے اندر ایک ٹروجن ہارس قرار دیا جا رہا ہے جوگروپ کے اتحاد کو کمزور کر نے کے مقاصد پر عمل پیرا ہے۔ ایس سی او میں بھی بھارت کا متنازع کردار اسے ٹروجن ہارس ثابت کر رہا ہے۔ ضروری ہے کہ رکن ممالک بھارت کے اس کردار سے متنبہ رہیں اور اس کے تدارک کی فکر کریں ۔ بلوچستان میں بھارتی سپانسرڈ دہشت گردی سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی ایک گھناؤنی سازش ہے مگر علاقائی ترقی‘ استحکام اور خوشحالی کیلئے پُرعزم ایشیائی ممالک کی اجتماعی کوشش اور قوی ارادہ بھارتی گھناؤنے عزائم پر غالب آ سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علاقائی ترقی کے شراکت دار ترقی کا کوئی موقع ضائع نہ کریں۔ بھارتی سازشوں سے خطے کے ممالک کو بچانا بھی اجتماعی ذمہ داریوں میں شامل سمجھا جائے۔ اس سلسلے میں افغانستان بطور خاص قابلِ توجہ ہے جس میں دخل اندازی کیلئے بھارتی ریشہ دوانی وجۂ تشویش ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی اسی کا شاخسانہ ہے‘ مگر آنے والے وقت میں یہ ٹروجن ہارس خطے کے دیگر ممالک میں بھی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں