اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

نئی آبی حکمت عملی ناگزیر

بدھ کو رات گئے جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں پندرہ گھنٹوں تک جاری رہنے والی بارش سے ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی۔ بارش سے کئی علاقے پانی میں ڈوب گئے‘ سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگیں‘ متعدد گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں سیلابی ریلے میں بہہ گئیں‘ پانی گھروں‘ پلازوں اور تہہ خانوں میں داخل ہو گیا۔ نالہ لئی میں پانی کی سطح خطرناک حد تک پہنچنے پر خطرے کے سائرن بجا دیے گئے۔ چکوال میں بھی بارش کا طوفانی روپ دیکھنے کو ملا‘ جہاں بادل پھٹنے سے ریکارڈ 423 ملی میٹر بارش برسی جس سے دھرابی ڈیم کا ایک بند بھی ٹوٹ گیا۔ لاہور‘ گجرات‘ جہلم‘ فیصل آباد‘ قصور اور دیگر شہروں میں بھی شدید بارشوں کا سپیل ریکارڈ کیا گیا۔ پنجاب حکومت نے بشمول راولپنڈی شدید بارشوں‘ سیلاب اور طغیانی کی لپیٹ میں آئے علاقوں میں رین ایمرجنسی نافذ کردی ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ‘ پولیس اور ریسکیو ادارے عوام کو سیلابی صورتحال سے بچانے کیلئے متحرک ہوگئے ہیں۔ بارشوں کے سبب پچاس سے زائد اموات اور سینکڑوں افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ پنجاب پولیس کا ایک جوان بھی جہلم میں ریسکیو کے دوران سیلابی پانی کی نذر ہو گیا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق یہ مون سون کا تیسرا سپیل ہے اور بارشوں کا سلسلہ مزید کئی دن تک جاری رہے گا۔ اس وقت پورا ملک مون سون کی بارشوں کی زد میں ہے اور بلاشبہ بارشوں کی یہ صورتحال غیر معمولی ہے۔ کلائوڈ برسٹ اور گھنٹوں تک مسلسل بارشوں کے یہ مناظر اس سے پہلے شاذ ہی دیکھنے کو ملتے تھے مگر موسمیاتی تبدیلیوں نے موسموں کے پیٹرن کو اس طرح بدل دیا ہے کہ محض تین ہفتے پہلے تک خشک پڑا راول ڈیم اب نہ صرف مکمل بھر چکا ہے بلکہ سپیل ویز کھولنے کا سوچا جا رہا ہے۔ محکمہ موسمیات سمیت متعلقہ اداروں کی جانب سے کئی ماہ پہلے ہی متنبہ کر دیا گیا تھا اور وفاقی و صوبائی انتظامیہ کو مطلع اور متحرک بھی کیا گیا تھا تاکہ سیلابی نالوں اور آبی گزرگاہوں کی صفائی یقینی بنائی جا سکے‘ اس کے باوجود ہر سال کی طرح امسال بھی جا بجا انتظامی کوتاہی دیکھنے میں آئی۔ حکومتی انتظامات ایک طرف‘ اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ اکثر شہروں میں سیلابی نالے تجاوزات کی زد میں ہیں جس کے سبب ان میں سے کچرا مکمل طور پر صاف نہیں کیا جا سکا۔ حالیہ واقعات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عوام میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومتی سطح پر اس جانب بھی توجہ دی جانی چاہیے اور ایسے علاقوں میں‘ جہاں سیلابی خدشات زیادہ ہیں‘ لوگوں کو اپنے آپ اور دوسروں کو ریسکیو کرنے کے حوالے سے آگاہی اور ٹریننگ ورکشاپس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ موجودہ حالات موسمیاتی تبدیلیوں کا بدترین مظہر ہیں۔ 2022ء کے سیلاب کے بعد ماہرینِ موسمیات نے یہ تجزیہ کیا تھا کہ یہ سیلاب اس امر کی پیشگی اطلاع ہے کہ اب سیلاب پاکستان کے معمولات کا حصہ ہوں گے۔ گزشتہ تین سال کے واقعات اس تجزیے کی تصدیق کر رہے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں طوفانی بارشیں اور سیلاب سالانہ معمولات کا حصہ سمجھے جاتے ہیں‘ اب پاکستان بھی انہی ممالک میں شمار ہونے لگا ہے۔ ان ملکوں کے تجربات سے سبق سیکھ کر ہم آئندہ کیلئے اپنے علاقوں کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ بارشی پانی کو محفوظ کرنے اور بعد ازاں بروئے کار لانے کے حوالے سے چھوٹے بڑے آبی ذخائر‘ تالاب‘ جھیلوں اور کنوئوں کی تعمیر سے متعلق کوئی دو آرا نہیں۔ دریائوں کے پاٹ کو چوڑا کرنے اور ندی نالوں کو وسیع کر کے بھی پانی کے اخراج کے نظام کو بہتر بنایا جا سکتا ہے مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ اربابِ اختیار ان بارشوں سے سبق سیکھیں۔ رواں سال مون سون سے ہونے والے حادثات‘ نقصانات اور ان کے اسباب کا گہرا تجزیہ کریں تاکہ مستقبل کے حوالے سے بہتر منصوبہ بندی کی جا سکے۔ بدلتے حالات فرسودہ نظام کے بجائے ایک نئی اور مؤثر آبی پالیسی کے متقاضی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں