کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس
سٹیٹ بینک کے مطابق ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ 14 سال بعد دو ارب 10 کروڑ ڈالر سرپلس ہوا ہے‘ جوایک بڑی معاشی پیشرفت ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ریکارڈ ترسیلاتِ زر‘ برآمدات میں بہتری‘ کرنسی اصلاحات اور سٹاک مارکیٹ کی تاریخی کارکردگی نے ملکی معیشت کو نئی توانائی بخشی ہے‘ تاہم ان معاشی اشاریوں میں بہتری کے باوجود عام شہری کی زندگی میں اس کا کوئی عکس نظر نہیں آتا۔ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 44.7 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔آئی ایم ایف کی ورلڈ اکنامک آؤٹ لُک کے مطابق ملک میں بیروزگاری کی شرح آٹھ فیصد ہے۔ مہنگائی نے بھی عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔ اس صورتحال میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا معاشی ترقی کے یہ اعداد و شمار صرف رپورٹس تک محدود رہیں گے یا عام آدمی کو بھی ان کے ثمرات حاصل ہوں گے؟ حکومت کی معاشی بہتری کی کوششیں قابلِ قدر ہیں تاہم جب تک ان کا اثر نچلے طبقے کے شہریوں کی زندگی میں آسانی‘ روزگار اور خریداری کی سکت میں بہتری نہیں لاتا‘ ان کو اعداد وشمار کا گورکھ دھندہ ہی سمجھا جائے گا۔ ضروری ہے کہ معاشی اشاریوں کے ساتھ عوامی ریلیف پر بھی توجہ مرکوز کی جائے۔ حکومت صرف بیرونی خسارے کو کم کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ عوامی سطح پر غربت‘ بیروزگاری اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی جیسے مسائل کو بھی اولین ترجیح دے تاکہ معاشی استحکام کا فائدہ نیچے تک منتقل ہو اور ہر شہری کو اس کا ثمر ملے۔