بارشوں سے تباہی
مون سون کے چوتھے سپیل کے تحت ملک کے بیشتر علاقوں میں بارشوں کا سلسلہ جاری ہے‘ جس کے باعث گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں متعدد قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ سوموار کو گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں بارشوں نے تباہی مچا دی۔ دیوسائی اور بابوسر ٹاپ پر لینڈسلائیڈنگ اور کلاؤڈ برسٹ سے تین سیاح جاں بحق اور 20 کے قریب لاپتا ہو گئے۔ رابطہ پُل تباہ ہونے اور سڑکیں بہہ جانے سے سینکڑوں افراد پھنس گئے جنہیں مقامی انتظامیہ اور پاک فوج کی جانب سے ریسکیو کرکے محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔ آزاد کشمیر کے علاقے وادیٔ نیلم میں بھی کلاؤڈ برسٹ سے تباہی مچ گئی‘ خیبر پختونخوا میں سوات‘ مدین‘ باجوڑ‘ کوہستان اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی بھی گزشتہ دو روز سے طوفانی بارشوں کی زد میں رہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 21 افراد بارشوں کے سبب میں جاں بحق ہوئے جبکہ 26 جون سے جاری مون سون کے حالیہ سلسلے میں اب تک 242 افراد جاں بحق اور 598 زخمی ہو چکے ہیں۔ ہمارے ملک میں جب بھی معمول سے کچھ زیادہ بارشیں ہو جائیں اس طرح کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے ہماری انتظامیہ کتنی تیار ہوتی ہے اور عوام کتنے چوکنا ۔ چند روز قبل این ڈی ایم اے کی جانب سے موسم کی آئندہ صورتحال سے آگاہ کیا گیا تھا اور شہریوں کو غیر ضروری سفر سے گریز کی ہدایت بھی کی گئی تھی‘ اسکے باوجود ملک کے بالائی علاقوں میں سیاحوں کی آمدو رفت کا سلسلہ جاری ہے۔ اب دوبارہ محکمہ موسمیات کی جانب سے کلائوڈ برسٹ اور گلوف یعنی گلیشیر پھٹنے کا انتباہ جاری کیا گیا ہے جبکہ شہریوں کو محفوظ مقامات پر رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اگرچہ یہ امر واضح ہے کہ یہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ہیں جو اس وقت پاکستان بھگت رہا ہے کہ ایک ہی روز میں ملک میں کلائوڈ برسٹ کے تین واقعات پیش آئے۔ آج سے ڈیڑھ‘ دو دہائیوں قبل تک گلوف‘ کلائوڈ برسٹ‘ اربن فلڈنگ اور فلیش فلڈنگ جیسی اصطلاحات سننے کو نہیں ملتی تھیں تاہم آج یہ نئے دور کے چیلنجز ہیں‘ جن کا ہمیں سامنا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ قدرتی آفات کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا مگر ان حالات میں خود کو محفوظ رکھنے کے قابل ضرور بنایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ دو دن سے جو مناظر ہمیں وفاقی دارالحکومت اور دیگر شہروں میں دیکھنے کو مل رہے ہیں‘ کون انکار کر سکتا ہے کہ ان کا ایک بڑا سبب انسانی غفلت ہے۔ یہ پانی کی قدرتی گزر گاہوں پر تعمیرات کا شاخسانہ ہے کہ گاڑیاں تنکوں کی طرح سڑکوں پر بہہ رہی ہیں۔ اگر پانی کو نکاس کی راہ نہیں ملے گی تو وہ آبادیوں کا رخ کرے گا۔ اس کا بہترین حل یہی ہے کہ پانی کی قدرتی گزرگاہوں کو کلیئر کیا جائے اور آبی راستوں کو کھولا جائے۔ برساتی پانی کے ذخائر کی تعمیر پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ سیلابوں سے بچنے کے جو دیگر مؤثر حل ہیں ان پر بھی غور و فکر کیا جانا چاہیے۔ آفاتِ سماوی پر بلاشبہ انسان کا کوئی اختیار نہیں مگر جدید دور میں‘ جب موسموں کا مزاج بہت پہلے معلوم کیا جا سکتا ہے‘ ناخوشگوار حالات سے نبرد آزما ہونے کی سبیل ضرور کی جا سکتی ہے۔ انتظامی اور انسانی غفلت کو موسمیاتی تبدیلیوں کی آڑ میں چھپانے کی روش کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اگر احتیاط اور پیش بندی کے اقدامات پر توجہ دی جائے تو قدرتی آفات کی تباہ کاریوں کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔اس سال معمول سے زیادہ مون سون بارشوں کو ایک کیس سٹڈی کے طور پر لینا چاہیے اور اس صورتحال سے سیکھنا چاہیے تا کہ آنے والے وقتوں میں ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے تو ہم اس کے لیے تیار ہوں۔ اگر اس بڑے پیمانے کے جانی و مالی نقصان کو بھی در خور اعتنا نہ سمجھا گیا تو بعید نہیں کہ آنے والے برسوں کی موسمی آفات اس سے کہیں زیادہ خطرناک اور نقصان د ہ ثابت ہوں۔