اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

پاک امریکہ تعلقات کی وسعت

نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحق ڈار کی امریکی سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے اہم پیشرفت ہے۔صدر ٹرمپ کے موجودہ دور میں پاک امریکہ تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے اور دو طرفہ اعتماد کو تقویت ملی ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کی یہ نوعیت باہمی معاملات کیلئے خوش آئند ہے اور خطے کی جیو پولیٹیکل صورتحال کیلئے اس کے اثرات اہم ہیں۔وزرائے خارجہ کی اس ملاقات میں خطے میں امن و استحکام ‘ تجارت اوردہشت گردی کے خلاف اقدامات جیسے اہم امور پر بات چیت ہوئی اور اس سال اگست میں اسلام آباد میں ہونے والے پاک امریکہ انسدادِ دہشت گردی ڈائیلاگ پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔امریکی وزیر خارجہ نے خطے میں استحکام اور ایران کیساتھ مکالمے میں ثالث کا کردار ادا کرنے پر پاکستان کے سفارتی کردار کو سراہا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک ذمہ دار ریاست کی حیثیت سے  پاکستان عالمی برادری کی توجہ حاصل کر رہا ہے۔ پاکستان ہمیشہ علاقائی اور عالمی امن و استحکام کا داعی رہا ہے۔ ایران امریکہ مکالمے میں سفارتی کاوش کا مقصد بھی یہی تھا۔ پاکستان کے اس کردار کو سراہے جانے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی محنت اور خلوص کی قدر کی گئی ہے۔ بلا شبہ یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں کہ ہمارا خطہ ایک ایسے تنازعے سے بچ گیا جس کے اثرات خاصے وسیع اور خطرناک ہو سکتے تھے۔ پاکستان کے اس کردار کو دیکھنے کا ایک زاویہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے امریکہ کو ایک مشکل علاقائی تنازعے میں الجھنے سے بچنے کا موقع فراہم کیا ۔ صدر ٹرمپ جنگیں ختم کر نے کے عزم کیساتھ دوسری بار اقتدار میں آئے تھے ‘ایک نئی جنگ میں شامل ہوجانا اس بیانیے کے برعکس تھا اور اس صورت میں صدر ٹرمپ کی مقبولیت کا نقصان خارج از امکان نہیں تھا۔ جون میں کیے گئے امریکی رائے عامہ کے جائزوں میں یہ پایا گیا ہے کہ ایران سے متعلق صدر ٹرمپ کی پالیسی پر عوامی رائے منفی ہے‘ جہاں صرف 37 فیصد افرادنے ان کی حمایت کی۔ 60 فیصد رائے دہندگان‘جن میں 2024ء میں ٹرمپ  کو ووٹ دینے والے 53فیصد افراد بھی شامل تھے‘کا کہنا تھاکہ امریکہ کو اسرائیل اور ایران کے تنازعے میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ اس تناظر میں پاکستان کی جانب سے ثالثی کی کوشش مشرق وسطیٰ کے امن کیساتھ ساتھ نئی امریکی انتظامیہ کیلئے بھی اہم تھی۔ ضروری ہے کہ امن و استحکام کا یہ مشن جاری رہے اور اس کیلئے فی الوقت سب سے بڑا چیلنج غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ اورفلسطینی شہریوں کیلئے ایسا بندوبست یقینی بنانا ہے جوامن کی گارنٹی دے سکے۔ جنوبی ایشیا کی بات کی جائے تو صدر ٹرمپ کی قابلِ قدر مساعی پاک بھارت جنگ بندی کا سبب بنی۔ صدر ٹرمپ نے اس کامیابی کے اعتراف میں بخل سے کام نہیں لیا اور بارہا پاکستان کے تعاون ‘ قوتِ فیصلہ اور مؤثر قیادت کی تعریف کر چکے ہیں جس کی توفیق سے یہ جنگ بندی عمل میں آئی۔ پاک بھارت تنازعات کی چنگاری بھی اس وقت تک بجھ نہیں سکتی جب تک مسئلہ کشمیر کا حل نہیں نکل آتا ‘ کیونکہ دونوں ملکوں میں باوجود کئی دیگر تنازعات کے‘ مسئلہ کشمیر ہی بنیادی تنازع ہے۔ اس حوالے سے صدر ٹرمپ کے بیانات ریکارڈ پر ہیں اور خاصے امید افزا ہیں۔ معاصر دنیا میں مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین ہی دو ایسے تنازعات ہیں جو علاقائی اور عالمی کشیدگی کے بنیادی محرکات ہیں۔ ان مسائل کا قابل و قبول حل دنیا کیلئے دیر پا امن کے امکانات کا سبب ہو گا ۔ پاکستان اور امریکہ میں سکیورٹی تعاون اور علاقائی تزویراتی منظر نامے کیساتھ ساتھ تجارت اور معیشت کے شعبے میں بھی ترقی کی ضرورت ہے۔معدنی وسائل‘ تعلیم‘ صنعت اورسائنسی تحقیق اور ترقی کے شعبے میں امریکی سرمایہ کار ی اور تعاون پاک امریکہ تعلقات کی وسعت میں اضافہ کر سکتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں