پولیو کا نیا کیس
گزشتہ روز خیبرپختونخوا کے ضلع ٹانک سے دس ماہ کے بچے میں پولیو کی تصدیق کے بعد ملک میں رواں برس سامنے آنے والے پولیو کیسوں کی تعداد 18 ہو گئی ہے۔ 11پولیو کیس صرف خبیر پختونخوا سے رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف حکومت کی پولیو کے خاتمے کی حکمت عملی پر سوالیہ نشان ہے بلکہ اس بات کی نشاندہی بھی کرتی ہے کہ پاکستان پولیو کے مکمل خاتمے کی منزل سے اب بھی کوسوں دور ہے۔ حکومت یہ دعویٰ کرتی آئی ہے کہ انسدادِ پولیو مہمات میں بہتری لائی گئی ہے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ ملک میں پولیو کے پھیلاؤ کی وجوہات میں بچوں کی ویکسی نیشن میں کوتاہی‘ چند اضلاع میں مزاحمت‘ سکیورٹی چیلنجز اور حکومتی مشینری کی کمزور منصوبہ بندی شامل ہیں۔ پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے انسدادِ پولیو پالیسی پر ازسرِ نو غور ازحد ضروری ہے۔ تسلسل سے پولیو مہمات کے ساتھ متاثرہ اضلاع میں مقامی آبادی سے مؤثر رابطہ‘ مذہبی و سماجی رہنماؤں کی شمولیت‘ ہر بچے تک پولیو کے قطروں کی فراہمی اور فرنٹ لائن ورکرز کی سکیورٹی جیسے پہلوؤں کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ پروپیگنڈا کا شکار نہ ہوں‘ ہر مہم میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلوائیں اور صحت مند معاشرے کے قیام میں اپنا فرض ادا کریں۔