پاک ایران،تجارت و ترقی
ایران کے صدر مسعود پزشکیاں کا دو روزہ دورہ پاک ایران تعلقات کے تناظر میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان اور ایران قریب ترین ہمسائے اور تاریخی ‘ ثقافتی اور مذہبی رشتوں میں بندھے ہوئے دو ایسے ملک ہیں جو ایک دوسرے کیلئے غیر معمولی طور پر اہم ہیں۔دونوں ملکوں میں تجارتی شعبے میں بے حد امکانات موجود ہیں۔ فاصلے کی کمی اور ایک دوسرے کی ضرورت کو پورا کرنے کی صلاحیت پاکستان اور ایران کو بہترین تجارتی شراکت دار بناتی ہے ‘لیکن دونوں ملک تجارتی امکانات سے بھر پور فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔ ایران توانائی سے مالا مال ہے مگر پاکستان میں ایرانی تیل اور گیس کی درآمد محدود ہے۔ پاک ایران تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں ایران پر عائد عالمی پابندیاں سر فہرست ہیں۔پابندیوں کی وجہ سے ایران کیساتھ بینک کھاتوں میں رکاوٹیں اور بینکنگ چینل سے لین دین کی مشکلات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تاجر امکانات کے باوجود باہمی تجارت کو بہت زیادہ فروغ نہیں دے سکے۔اس وقت دونوں ملکوں کی باہمی تجارت کا حجم تین ارب ڈالر کے قریب ہے۔اس میں تقریباً اڑھائی ارب ڈالر کا سامان ایران پاکستان کو بیچتا ہے۔ دونوں ملکوں کی حکومتی قیادت اس تجارت کو 10ارب ڈالر تک بڑھانے کی خواہش مند ہے۔ گزشتہ برس اپریل میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی مرحوم نے ایران اور پاکستان کے درمیان موجودہ اقتصادی اور تجارتی حجم کو نا کافی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے پہلے قدم پر اپنے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔صدر مسعود پزشکیاں نے بھی گزشتہ روز دورۂ پاکستان پر روانہ ہونے سے قبل دو طرفہ تجارت کو 10ارب ڈالر تک بڑھانے کے منصوبوں کا عندیہ دیا ۔ تجارتی حجم کو اس سطح پر لانے کیلئے دونوں ملکوں کو کئی ممکنہ رکاوٹوں کو عبور کرنا ہو گا۔ اس میں سب سے بڑا چیلنج بینکنگ کی سہولیات کی فراہمی اور ایران پر عالمی پابندیوں کا ہے۔تاہم دونوں ملکوں میں سرحدی تجارت کو بڑھانے میں عملاً کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے۔ دونوں ملکوں میں 900کلو میٹر کی مشترکہ سرحد ہے مگر سر حد ی تجارت کیلئے درکار سہولتوں کی کمی اور طریقہ کار کی رکاوٹوں اور مشکلات کی وجہ سے تجارت کا حجم محدود ہے۔ دونوں ملکوں کی حکومتیں اگر باہمی تجارت کو تین ارب ڈالر کی موجودہ سطح سے بڑھا کر 10 ارب ڈالرتک لے جانا چاہتی ہیں تو یہ تجارتی سہولتوں میں بڑے پیمانے پر اضافے کے بغیر نہیں ہو گا۔ دونوں ملکوں کو تجارت کیساتھ ساتھ سرحدوں کی سکیورٹی کیلئے باہمی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے تا کہ سرحدوں پر امن و امان قائم رہے اور تجارتی سرگرمیاں کسی مشکل سے دوچار نہ ہوں۔ ایران کی جانب سے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شمولیت کی خواہش کا اظہار بھی خوش آئند ہے۔ پاکستان کی طرح ایران کے بھی چین کیساتھ بڑے خوشگوار اور گہرے تعلقات ہیں اور چین ایرانی پٹرولیم مصنوعات کا بہت بڑا خریدار ہے۔ پاکستان میں سی پیک کا رُوٹ ایران کو چین کیساتھ اپنی تجارت کو فروغ دینے اور زمینی راستے سے ترسیلات کی سہولت فراہم کرسکتا ہے جو ایران اور چین کے درمیان کم ترین فاصلہ ہو گا۔ پاکستان اور ایران میں معاشی ترقی کے بے پناہ امکانات موجود ہیں اور اگر افغانستان اور وسط ایشیا کی ریاستوں کو بھی اس حلقے میں شامل کر لیا جائے تو یہ علاقائی تعلق‘ تجارت اور معیشت کی مثلث اس خطے میں انقلابی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔خطے کے سبھی ممالک کو اسکی ضرورت ہے اور قدرتی طور پر یہ سبھی ممالک کسی نہ کسی حوالے سے ایک دوسرے کے کام آنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں؛چنانچہ علاقائی قربت اور مشترکہ ترقی کی بنیادیں موجود ہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ان بنیادوں پرترقی ‘ خوشحالی اور استحکام کی عمارت تعمیر کی جائے۔