اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

پاک ایران تعاون او ر حمایت

وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز ایرانی صدر مسعود پزشکیان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران جہاں برادر اسلامی ملک کے ساتھ تعلق کے دیگر پہلوؤں پر روشنی ڈالی وہیں انہوں نے پُرامن مقاصد کیلئے ایرانی جوہری پروگرام کی حمایت کا بھی اعلان کیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پُرامن مقاصد کیلئے جوہری قوت حاصل کرنے کا ایران کو پورا حق حاصل ہے اور پاکستان ایران کے حق کیلئے اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ بیان پاکستان کی دیرینہ پالیسی کا عکاس ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق پُرامن مقاصد کیلئے کسی بھی سائنسی شعبے اور توانائی کے وسیلے کی طرح جوہری صلاحیت کا حصول بھی ایران کا جائز حق ہے۔ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ کوئی بھی خودمختار ملک عالمی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے پُرامن مقاصد کیلئے جوہری توانائی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اس حق سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایران کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ایران طویل عرصے سے کہہ رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کیلئے ہے۔ یہ پروگرام اقوام متحدہ کے جوہری نگرانی کے ادارے کی نظر میں ہے۔ ایرانی حکومتوں کا  بھی یہی مؤقف ہے کہ ان کا مقصد جوہری ہتھیار کا حصول نہیں۔ جولائی 2015ء میں ایران اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک اور جرمنی کے مابین طے پانے والے جامع جوہری معاہدے میں سینٹری فیوجز کی تعداد اور قسم‘ یورینیم کی افزودگی کی سطح اور ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کے حجم کو محدود کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تین سال بعد مارچ 2018ء میں آئی اے ای اے نے تصدیق کی تھی کہ ایران اپنے جوہری وعدوں پر عمل کر رہا ہے۔ امریکی ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس تلسی گیبرڈ نے بھی اس سال مارچ میں کانگرس میں گواہی دی تھی کہ ایران نے 2003ء میں بند کیے گئے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو دوبارہ شروع نہیں کیا۔ یہ شہادتیں اس قابل ہیں کہ ان پر بھروسا کیا جا سکے مگر بدقسمتی سے ایسا ہوا نہیں ہوا اور ایرانی جوہری پروگرام کو بہانہ بنا کر اس سال جون میں جس قسم کی جارحیت کا ارتکاب کیا گیا وہ پورے خطے کے امن کیلئے تباہ کن تھی۔ مشرق وسطیٰ پہلے ہی فلسطین اور دیگر تنازعات کی وجہ سے نازک صورتحال سے دوچار ہے۔ ایران کے خلاف جارحانہ اقدامات نہ صرف ایران بلکہ پورے خطے کو ایک بڑی جنگ کی طرف دھکیلنے کا باعث بن سکتے تھے۔ خوش آئند بات ہے کہ اسرائیل کی اس اشتعال انگیزی کے باوجود ایران کی جوہری پالیسی میں بظاہر کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی اور پُرامن مقاصد سے ہٹ کر جوہری توانائی کے استعمال کا کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیا۔ یہ صورتحال پُرامن مقاصد کیلئے ایرانی جوہری پروگرام کی حمایت کے پاکستانی مؤقف کی تائید کرتی ہے۔ دونوں ملکوں میں 900 کلومیٹر پر محیط مشترکہ سرحد کے چیلنجز کی بات کی جائے تو دہشت گردی‘ سمگلنگ اور دراندازی کے مسائل دونوں ملکوں کی سلامتی اور قومی مفادات کیلئے خطرہ ہیں‘ اس لیے سرحدی سکیورٹی کی جانب خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ دونوں ملک تجارت میں گراں قدر اضافے کے خواہش مند ہیں اور تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سرحدی صورتحال مثالی ہو۔ اس مقصد سے دونوں ملکوں کو مشترکہ حکمت عملی اور عزم کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ملکوں کے ایک دوسرے سے متصل سرحدی علاقے دہشت گردی سے متاثر ہیں؛ چنانچہ دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف تعاون کی حکمت عملی اختیار کریں اور ایک ملک میں دہشت گردی یا جرائم میں ملوث عناصر کو دوسرے ملک میں سر چھپانے کی جگہ نہ ملے۔ پاکستان اور ایران میں بڑھتی ہوئی قربت اور تعاون دونوں ملکوں کی ترقی‘ خوشحالی اور قومی سلامتی کا بنیادی تقاضا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں