مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل پائیدار امن کی ضمانت
یومِ استحصال کشمیر پر وزیراعظم شہباز شریف نے کشمیری عوام کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی کا اعادہ کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کا نوٹس لے اور انسانی حقوق کے جرائم کا ارتکاب روکے۔پاک فوج کے سپہ سالار فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور مسلح افواج کی قیادت نے بھی کشمیری عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن تبھی ممکن ہے جب مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہو۔ ریاست جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے غیر قانونی‘ غیر آئینی اور غیر اخلاقی عمل کو چھ برس ہو گئے ہیں اور ان چھ برسوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ بھارت سرکار ظلم و جبر اور تشدد کے ہتھکنڈوں سے کشمیری عوام کو زیادہ دیر دبا کر نہیں رکھ سکتی۔ 5اگست 2019ء کو جب نریندر مودی کی فاشسٹ حکومت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی جغرافیائی حیثیت میں تبدیلی کا اعلان کیا تھا تو اس اقدام کو کشمیر میں امن لانے کا اقدام قرار دیا گیا تھا مگر حقیقت میں یہ اقدام کشمیریوں پر بھارتی ظلم وستم کے ایک نئے باب کا آغاز تھا‘ جو ہنوز جاری ہے۔ خطے میں امن آنا تو کجا‘ یہ خطہ آج بھی ایک ایسے فلیش پوائنٹ کی حیثیت رکھتا ہے جو کسی بھی وقت ایک نئی جنگ بھڑکا سکتا ہے اور پہلگام واقعے نے اس حقیقت کو مزید واضح کیا ہے۔ 1989ء سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے‘ ایک لاکھ 71 ہزار سے زائد کشمیری بھارتی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے ہیں‘ اب آپریشن مہادیو کی آڑ میں بھارت میں قید کشمیریوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں شہید کرنے کا نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ ’’آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ‘‘ کے تحت بھارتی فوجیوں کو مقبوضہ وادی میں جو لامحدود اختیارات دیے گئے ہیں‘ چند روز قبل ان کا مظاہرہ سرینگر ایئرپورٹ پر بھی دیکھنے کو ملا جب بھارتی فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل نے ایئرپورٹ عملے کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارتی مظالم اور غاصبانہ اقدام پر عالمی ادارے منقار زیر پر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کشمیری ایک سنگین انسانی المیے کا شکار ہیں۔ مقبوضہ وادی میں آبادی کا تناسب بدلنے کیلئے گزشتہ چھ برس میں پچاس لاکھ سے زائد ہندوئوں کو کشمیر کا ڈومیسائل جاری کیا گیا جبکہ 32 لاکھ سے زائد غیر مقامی ووٹرز کا اندراج ہوا ہے۔ ایسے میں مقامی افراد کا شدید تشویش میں مبتلا ہونا اور ردِعمل دینا عین فطری ہے۔ مگر بھارت سرکار کشمیر کے مسئلے کی نزاکت کو سمجھنے کے بجائے پاکستان پر الزام تراشی کا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ پاکستان روزِ اول سے ہر عالمی فورم پر کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کیلئے آواز بلند کر رہا ہے اور پہلگام واقعے کے بعد پیش آنیوالے حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا پائیدار اور منصفانہ حل ہی اس خطے میں امن کی ضمانت ہے۔ یہاں عالمی برادری بالخصوص اقوامِ متحدہ کی ذمہ داری دوچند ہو جاتی ہے جس نے سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں میں کشمیریوں سے استصوابِ رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا عہد کیا تھا۔ حالیہ عرصے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں مگر بھارت کی ہٹ دھرمی سے صاف ظاہر ہے کہ پائیدار امن اس کی ترجیحات میں نہیں۔ پاکستان اور بھارت جنگی اسلحے کے حصول میں جس سطح کو پہنچ چکے ہیں‘ اگر دونوں ملکوں میں دوبارہ کوئی معرکہ چھڑتا ہے تو اس کا بہت بڑے پیمانے کی تباہی پر منتج ہونا بعید از امکان نہیں۔ ان حالات میں مصالحت اور مفاہمت کی کوششوں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے‘ لہٰذا یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کے ظالمانہ ہاتھ کو روکے اور اسے مذاکرات کی میز پر لاکر پاک بھارت مسائل کو سلجھانے کی راہ ہموار کرے۔ یہی جنوبی ایشیا میں پائیدار اور مستقل امن کا راستہ ہے۔