دہشت گردی کے بڑھتے خطرات
گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں فتنہ الہندوستان کے دہشت گردوں کی جانب سے ایف سی اہلکاروں کی گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ‘ جس میں چار اہلکار شہید ہو گئے‘ دہشت گردی کے ابھرتے خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے خیبر پختوانخوا بالخصوص اس کے مغربی اور جنوبی اضلاع دہشت گردی کے نشانے پر ہیں۔ سکیورٹی صورتحال پر نظر رکھنے والے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ (جولائی میں) ملک میں دہشت گردی کے کُل 82 میں سے 53 ( 64 فیصد) واقعات خیبر پختوانخوا میں ہوئے۔ رواں سال اس صوبے میں اب تک دہشت گردی کے 300 سے زائد واقعات ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی کے چیلنجزسے نمٹنے کی بات کی جائے تو بلاشبہ صوبائی سطح پر انسدادِ دہشت گردی کے ادارے کافی مدد گارثابت ہو سکتے ہیں مگر دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر صوبے‘ جیسے خیبر پختونخوا اور بلوچستان‘ میں انسدادِ دہشت گردی کا صوبائی میکانزم اصلاح طلب ہے۔ وفاقی محکمہ داخلہ کی 2022ء کی ایک رپورٹ میں خیبر پختونخوا کے کائونٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ کی صلاحیت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سی ٹی ڈی کی نفری‘ بجٹ‘ انفراسٹرکچر اور تربیت کے حوالے سے متعدد اقدامات پر سوال اٹھایا گیا تھا۔ بعد ازاں صوبائی سطح پر اور وفاق کے اشتراک سے بہتری کیلئے متعدد اقدامات کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا مگر قابلِ ذکر بہتری نہ آ سکی۔ گزشتہ برس جون میں قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 2010ء میں این ایف سی ایوارڈ طے پانے کے بعد خیبر پختونخوا کو 590 ارب روپے دیے گئے تاہم اب تک صوبے میں کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ مکمل نہیں ہو سکا۔ جون 2024ء ہی میں نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان اور خیبر پختوا کے دہشت گردی سے متاثرہ اضلاع میں آپریشن عزمِ استحکام کا فیصلہ کیا گیا مگر سیاسی جماعتوں اور خیبر پختونخواکی حکومت کے تحفظات کی وجہ سے آپریشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے اس معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے اتفاقِ رائے پیدا کرنے کا کہاگیا مگر پچھلے چودہ ماہ کے دوران اے پی سی منعقدہو سکی اور نہ ہی دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی تیار کی جا سکی۔ ملک کے کسی حصے میں دہشت گردی کے مسلسل بڑھتے واقعات جب امن وامان کے لیے تشویش کا سبب بنتے ہیں تو ان حالات میں متعلقہ انتظامیہ کے ساتھ ساتھ وفاق کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ریاست ان خطرات پر خاموش نہیں رہ سکتی؛ چنانچہ قومی مفاد کا تقاضا یہی ہے کہ فتنہ الہندوستان کے خلاف پوری قوت سے کارروائیاں کی جائیں تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ اس حوالے سے متعلقہ فریقین کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ اس وقت باجوڑ میں علاقے کے بااثر افراد‘ سیاسی رہنماؤں اور مختلف طبقات کے نمائندوں پر مشتمل جرگے کے ذریعے کالعدم ٹی ٹی پی کو آبادیوں سے بے دخل کرنے کیلئے بات چیت کا عمل جاری ہے۔ یہ جرگہ کامیاب ہوتا ہے اور انتہا پسند عناصر آبادیوں سے نکل جاتے ہیں تو یہ امن و امان کیلئے بہتر ہو گا بصورت دیگر شدت پسند عناصر کے خلاف سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتا‘ جس کی تمام تیاریاں مکمل ہیں۔ دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھاتے خطرات سے نمٹنے کیلئے مرکز اور صوبوں کو یکجہتی کے ساتھ متفقہ حکمت عملی اپنانی چاہیے اور اس خطرے کا انسدادِ دہشت گردی کی منظم حکمت عملی کے ساتھ تدارک کرنا چاہیے۔ضروری ہے کہ عسکری حکمت عملی کے ساتھ قومی یکجہتی‘ ہم آہنگی اور اتفاقِ رائے کے آزمودہ نسخے سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا جائے۔ نیز صوبائی سطح پر انسدادِ دہشت گردی کے محکموں کی فعالیت اور استعداد بڑھانے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے۔