کاروباری اعتماد اور چیلنجز
ملک میں کاروباری اعتماد کا جائزہ لینے کیلئے ایک ادارے کے تازہ سروے کے مطابق 46فیصد کاروباری اداروں نے حکومت کی معاشی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مستقبل کے حوالے سے اچھی امیدوں کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ سال کاروباری اعتماد کی شرح 24 فیصد تھی۔اس سال اپریل تا جون کی سہ ماہی کیلئے کیے جانے والے سروے میں مہنگائی‘ بڑھتے ہوئے توانائی اخراجات اور لوڈ شیڈنگ جیسی مشکلات کے باوجود کاروباری اعتماد میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔مستقبل کے امکانات کے حوالے سے بات کی جائے تو گزشتہ سال اسی دورانیے کے سروے میں زیادہ تر تاجر خاصے مایوس نظر آتے تھے اور 57 فیصد نے منفی توقعات کا اظہار کیا تھا۔ مستقبل کے کاروباری اعتماد کا سکور 36 فیصد تک گر کر منفی 14فیصد ہو گیا تھا‘ تاہم حالیہ سروے میں اس میں 12فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ اب بھی یہ منفی میں ہے مگر2021ء کے بعد یہ اعتماد کی بلند ترین سطح ہے۔اگر چیلنجز کی بات کی جائے مہنگائی‘ توانائی اخراجات میں اضافہ اور ٹیکسز کاروباری شعبے کے بدستور اہم مسائل ہیں۔ 28 فیصد رائے دہندگان نے مہنگائی‘ 18 فیصد نے مہنگے یوٹیلیٹی بلوں‘ 11 فیصد نے ٹیکسوں اور 47 فیصد نے لوڈشیڈنگ اور دیگر سٹرکچرل مسائل کو کاروبار کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔ اگرچہ یہ سروے کاروباری اعتماد اور معاشی ماحول کے بہتری کی جانب گامزن ہونے کی نشاندہی کرتا ہے تاہم بحالی کی رفتار نسبتاً سست ہے‘ بالخصوص مینو فیکچرنگ سیکٹر میں۔ اگر ان عوامل کی بات کی جائے جنہوں نے کاروباری طبقے کے اعتماد کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا تو ان میں افراطِ زر میں کمی‘ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں استحکام‘ امریکہ کیساتھ بہتر تجارتی معاہدے سمیت فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی کاروباری طبقے سے ملاقاتیں قابلِ ذکر ہیں۔ اس سے ایک طرف کاروباری طبقے کو نہ صرف اپنے مسائل مقتدر حلقوں تک پہنچانے کے مواقع میسر آئے بلکہ ان مسائل کے حل کی جانب فوری عملی پیشرفت بھی نظر آئی۔ البتہ ٹیکسوں اور توانائی کی قیمتوں کے حوالے سے کاروباری طبقہ تاحال شاکی اور مینوفیکچرنگ سیکٹر توانائی کی بلند قیمتوں اور آئے روز ان میں ہونے والے اضافے کے سبب مشکلات میں گھرا نظر آتا ہے۔ بزنس کانفیڈنس انڈیکس کسی بھی ملک میں کاروباری برادری کے جذبات کی عکاسی کرنے والا ایک اہم بیرومیٹر ہے اور دنیا بھر میں یہ مجموعی کاروباری حالات اور متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی رائے جاننے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سروے آئندہ معاشی حالات اور مستقبل کے خدشات کے حوالے سے معاشی منصوبہ سازوں کی جامع رہنمائی کرتا ہے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ معیشت کے چیلنجز کو یکطرفہ طور پر دور نہیں کیا جا سکتا‘ اس کیلئے سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کے کاروباری حالات پر حالیہ سروے کے نتائج سے یہ بات تو واضح ہے کہ اب معیشت بحران سے نکل کر استحکام کی راہ پر گامزن ہورہی ہے‘ تاہم جو امر اب بھی باعثِ تشویش ہے وہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ معیشت اور سیاست لازم و ملزوم ہیں۔ گزشتہ تین‘ سوا تین برس سے متواتر اس جانب توجہ دلائی جا رہی ہے کہ معاشی استحکام اور اس کی پائیداری کیلئے سیاسی بحران پر قابو پانا ازحد ضروری ہے۔ اگر ابتدا ہی میں سیاسی درجہ حرارت کو نمایاں حد تک کم کر لیا جاتا تو یقینا آج ملک کے معاشی مسائل خاصے کم ہوتے اور کاروباری اعتماد کا درجہ بھی کہیں بہتر ہوتا۔ اس وقت پاکستان امریکہ سمیت عالمی سرکایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنے اور دنیا کی بڑی معیشتوں کی تنظیم برکس میں شمولیت کیلئے کوشاں ہے۔ چنانچہ یہ وقت متقاضی ہے کہ معاشی مواقع بڑھانے کیلئے سیاسی مفاہمت پر بھی زور دیا جائے۔اس سلسلے میں جتنی تاخیر ہو گی اس کی معاشی قیمت بھی اتنی ہی بڑھتی چلی جائے گی۔