امید و استحکام کا دور
گزشتہ روز پاکستانی قوم نے جشنِ آزادی ایسے ماحول میں منایا جب مشکل وقت سے گزر کر پاکستان اقتصادی بحالی اور استحکام کے پُرامید دور میں داخل ہو رہا ہے۔ آج وطنِ عزیز ماضی قریب کی نسبت دفاعی اعتبار سے زیادہ محفوظ اور معاشی لحاظ سے قدرے مضبوط نظر آتا ہے۔ مئی میں آپریشن بنیانٌ مرصوص اور معرکہ حق میں بھارت کو شکستِ فاش دینے سے عالمی برادری میں پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند ہوا اور پوری دنیا پاکستان کی دفاعی اور حربی صلاحیتوں کی معترف نظر آتی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بحیثیتِ قوم ہمیں ہنوز بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے اور اب ان پر توجہ مرکوز کرنا ناگزیر ہو چلا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قدرت نے پاکستان کو ان وسائل اور نعمتوں سے نواز رکھا ہے جو اکثر ترقی یافتہ اور دولت مند ممالک کو بھی میسر نہیں‘ مگر اس کے باوجود ملک میں بیروزگاری عام ہے‘ معاشی اور سیاسی سطح پر بے یقینی پائی جاتی ہے جس کے سبب نوجوان مایوسی اور ناامیدی کا شکار نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قوموں پر اس سے بھی مشکل حالات آتے رہے ہیں مگر ان بحرانوں میں بھی اُن قوموں نے اپنے قدموں پر اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ برقرار رکھا اور امید کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں دیا۔ آج کے پاکستان کے حالات یقینا دوسری عالمی جنگ کے شکست خوردہ جاپان کے حالات سے بدرجہا بہتر ہیں۔ معاشی‘ سماجی اور سیاسی نظام قائم ہے‘ کاروبارِ حیات رواں دواں ہے‘ گلیوں بازاروں میں چہل پہل برقرار ہے۔ فقط مایوسی کا ایک غلاف ہے‘ جو نوجوانوں کی فکر پر چھایا ہوا‘ ان کے مستقبل کے منظر نامے کو دھندلا رہا ہے۔ اگر قوتِ ایمان کو بروئے کار لایا جائے تو کوئی چیلنج ایسا نہیں جس سے نمٹنا مشکل ہو۔ پاکستان اہلِ ایمان کا ملک ہے اور ہمارا دین مایوسی اور ناامیدی کو کفر گردانتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تلخ حالات ہی قوموں کی صورت گری کرتے اور حالات اور چیلنجز کی بھٹی سے نمٹ کر ہی قومیں نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ اگر آج ہمیں دہشت گردی کے سنگین مسئلے کا دوبارہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو اس عفریت کو ہم گزشتہ عشرے میں زیر کر چکے۔ پاکستان کی بہادر اور پیشہ ور افواج ہر محاذ پر ملک کا دفاع کرنے کیلئے آج بھی مستعد ہیں۔ یومِ آزادی پر اپنے پیغام میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے دوٹوک انداز میں واضح کیا کہ ’پاک فوج روایتی‘ غیر روایتی اور ہائبرڈ خطرات سے نمٹنے کیلئے پوری طرح تیار ہے‘ ہم خطے میں امن‘ ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں لیکن اپنی آزادی اور خودمختاری پر کبھی سمجھوتا نہیں کریں گے اور ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی مہم جوئی کا فوری جواب دیا جائے گا‘۔ قومی ترقی اور آگے بڑھنے کی لگن میں قوم کا ہر فرد ایک سپاہی کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر فرد کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا ہو گا۔ قومی منظرنامے کو دھندلانے والے یاسیت‘ ناامیدی اور مایوسی کے اندھیروں کا مقابلہ کرنے کیلئے حکومت کو معاشی میدان پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں بنیادی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ بیروزگاری میں کمی آئے اور قومی پیداوار میں اضافہ ہو۔ حالیہ دنوں میں معاشی اعتبار سے متعدد خوش کن خبریں موصول ہوئی ہیں‘ یقینا اس میں حکومتی کاوشوں کا عمل دخل بھی ہے‘ ضروری ہے کہ آنے والے برسوں میں ان کا تسلسل برقرار رکھا جائے اور اس کیلئے پوری تندہی سے کام کیا جائے۔ ملکی معیشت کو اب عالمی سطح پر بھی سازگار حالات میسر آ رہے ہیں لہٰذا ان مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں سرمایہ کاری اور صنعتکاری کو فروغ دینا چاہیے۔ دوسری جانب بہتری کے اس تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے ملک میں سیاسی افہام وتفہیم کا ماحول قائم کرنا بھی ازحد ضروری ہے اور اس کے لیے حزبِ اختلاف کو بھی قومی معاملات میں اپنی ذمہ داریوں کا پاس کرنا چاہیے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف میں ایسے صحتمند مکالمے کی اشد ضرورت ہے جو مایوسی‘ یاسیت اور سیاسی ہیجان کے خاتمے پر منتج ہو۔