موسمی آفات اور بچاؤ کی منصوبہ بندی
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے مون سون بارشوں کے مزید دو سپیل آنے کا انتباہ جاری کیا گیا ہے۔ اب تک بارشوں کے سات سپیل آچکے اور اس سال بارشوں اور سیلابوں کے نتیجے میں 670افراد جاں بحق اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں جبکہ 90 کے قریب افراد لاپتا ہیں۔ گزشتہ برس پورے مون سون سیزن میں 368اموات ہوئیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 668تھی۔ یعنی رواں سال اب تک کا جانی نقصان گزشتہ برس سے تقریباً دو گنا ہو چکا ہے اور ابھی مون سون سیزن ختم ہونے میں کم و بیش ایک ماہ باقی ہے۔ ہر روز خیبر پختونخوا سے کلاؤڈ برسٹ اور گلگت بلتستان سے گلیشیر پھٹنے کے واقعات اور ان میں غیر معمولی جانی نقصان کی خبریں آ رہی ہیں۔ اندیشہ ہے کہ یہ سال مون سون سیزن کی تباہ کاریوں کے لحاظ سے پچھلے کئی سالوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گا۔ این ڈی ایم اے کے اعدادوشمار کے مطابق زیادہ تر اموات اربن فلڈنگ اور مکانات کے گرنے کے باعث ہوئی ہیں۔ اس سال مون سون سیزن میں 52فیصدجانی نقصان اربن فلڈنگ کی وجہ سے ہواہے اور 32 فیصد مکان منہدم ہونے کے باعث۔اگرچہ موسمیاتی تغیرات کے نتیجے میں بارشوں کی شدت اور دورانیے میں حیران کن تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں‘ جیسا کہ کلاؤڈ برسٹ کے واقعات جو پاکستان میں ایک نئی موسمی صورتحال کا پتا دیتے ہیں‘ اس سے پہلے کبھی اس تواتر سے یہاں نہیں ہوئے۔ یہ مظاہر ماورائے اسباب سہی مگر منصوبہ بندی اور پیش بندی سے انکے نقصانات کو کم ضرور کیا جا سکتا۔ ان میں کچھ اقدامات طویل مدتی ہوں گے جیسا کہ شجر کاری مگر کچھ ایسے اقدامات ضرورہوسکتے ہیں جن کے نتائج جلد برآمد ہونا شروع ہو جائیں۔ ان میں سب سے پہلا اور اہم ترین اقدام یہ ہونا چاہیے کہ زیادہ خطرے سے دوچار علاقوں میں لوگوں کو موسمی حالات سے خبر دار کرنے کے جدید اور مؤثر ذرائع اختیار کیے جائیں۔ بروقت اطلاعات سے جانی اور مالی نقصان کو کم کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ زیادہ نقصان مکانوں کے گرنے کی وجہ سے ہورہا ہے اس لیے ضروری ہے کہ پہاڑی علاقوں میں ایسے تعمیراتی معیار متعارف کرائے جائیں جو مکانات کے گرنے اور حادثات میں کمی کا سبب بنیں۔یوں لگتا ہے کہ ہمارے ہاں پہاڑی علاقوں میں پتھروں کی دیواریں کھڑی کرکے مکان تعمیر کرنے کے روایتی انداز درپیش موسمی چیلنجز کے دوران ایک بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ دوسرا کا م جس پر سب سے زیادہ توجہ ہونی چاہیے وہ اربن فلڈنگ سے بچاؤ کے اقدامات ہیں۔ ہمارے ہاں مون سون سیزن میں بہت بارشیں ہوتی ہیں مگر ایسے بہت سے ممالک ہیں جہاں اس سے کہیں زیادہ بارشیں سارا سال ہوتی رہتی ہیں مگر اربن فلڈنگ کے حالات پیدا نہیں ہوتے۔ فی زمانہ یہ کوئی ایسی ناقابلِ عمل مہم نہیں۔ دنیا کی مثالیں اور ہمارے مسائل بہت واضح ہیں کہ اربن فلڈنگ کیلئے منصوبہ بندی کے بغیر ہمارے شہر مستقل خطرے میں ہیں۔ نکاسیِ آب کے نظام پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ شہر چھوٹے ہوں یا بڑے‘ شمال کے ہوں یا جنوب کے‘ نکاسیِ آب کے مسائل ہر جگہ ہیں۔ اس جانب سنجیدہ توجہ دیے بغیر شہری علاقوں میں سیلاب کے خطرات کا کوئی حل نہیں۔ اپنی ان ذمہ داریوں سے غفلت برت کر ہم صرف موسمی تبدیلیوں کو اپنے مسائل کا سبب قرار دے کر مطمئن نہیں ہو سکتے ۔ یہ چیلنجز مسلسل اقدامات کے متقاضی ہیں ۔ جب ہمارا تعمیراتی ڈھانچہ موسموں کے خطرات کو جھیلنے کے قابل بن جائے گا‘ جب یہ حقیقت ہماری سمجھ میں آ جائے گی کہ پہاڑی ڈھلانوں پر درخت کی قطاریں ہمارے لیے پہلے دفاعی لائن ہیں اور جب ہمارا نکاسیِ آب کا نظام غیر متوقع بارشوں کے بوجھ کو سہارنے کے قابل ہو گا تو مون سون کا موسم اس طرح بے رحم اور قاتل نہیں رہے گا۔ موسمی تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے مگر ان سے بچنے کیلئے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے‘ اور یہ کیے بغیر چارہ نہیں۔