اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

بارشیں اورسیلاب

زور دار بارشوں کے سلسلے اور دریاؤں کے بہاؤ میں اضافہ ملک میں سیلابی صورتحال کا سبب بن چکا ہے۔ پنجاب میں آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے کے مطابق دریائے راوی اور ستلج میں آئندہ اڑتالیس گھنٹوں میں اونچے سے انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کا خدشہ ہے۔ دریائے چناب کی بھی یہی صورتحال ہے جہاں منگل کے روز مرالہ کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب تھا۔ بھارت کی جانب سے مزید تین لاکھ کیوسک کے سیلابی ریلے کی آمد کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیاہے ۔  راوی‘ ستلج اور چناب میں سیلاب کی وجہ سے پنجاب کے اکثر میدانی علاقے خطرے کی زد میں ہیں اور ہزاروں ایکڑ فصلیں تباہ ہونے کا خدشہ ہے جس کے معاشی اثرات شدید تر ہوں گے۔ زرعی معیشت پہلے ہی مشکلات سے دوچار ہے‘ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں فصلوں کو ہونے والا نقصان کاشتکاروں کیلئے مزید معاشی مسائل کا سبب بنے گا۔حالیہ چند برسوں کے دوران ملک میں سیلابوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں یعنی بڑھتی ہوئی عالمی حدت اور اس کے نتیجے میں بخارات کی زیادہ مقدار ہے جس سے مون سون کی بارشوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال جولائی میں 36 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں۔ سائنسدانوں کے مطابق بڑھتی ہوئی حدت کی وجہ سے ماحول میں زیادہ رطوبت ہے جو زیادہ بارش اور سیلاب کی بڑی وجہ ہے۔اس سال بالائی علاقوں میں کلاؤڈ برسٹ کے مسلسل واقعات بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارا اس وبال میں اپنا حصہ بہت کم ہے مگر ہمیں اس کی سزا بھگتنا پڑرہی ہے اور اس میں سال بہ سال اضافہ ہورہا ہے۔ موسمی شدتیں بڑھتی جارہی ہیں‘موسم اپنے معمول سے ہٹے جاتے ہیں اور ان تبدیلیوں سے ہمارے رہن سہن‘ ذرائع آمدن اور خوراک پر گہرے اور خوفناک اثرات ہیں۔ سال کے کئی مہینے ملک میں مکمل طور پر سوکھے کی کیفیت اور بارشوں کے موسم میں تباہ کن بارشیں ۔ ان موسمی آفات سے بچاؤ ہمارے لیے بقا کی جنگ بن چکا ہے۔ مون سون کے موسم میں ریکارڈ توڑ بارشیں اور تقریباً ہر سال سیلاب یہ واضح کرتے ہیں کہ ہمیں ماحولیات کے کس قدر سنجیدہ خطرات کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے درست کہا ہے کہ پاکستان اکیلا اس صورتحال سے نہیں نمٹ سکتا۔ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا سامنا کرنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک سے مدد کی توقع بجا ہے ۔ یہ مطالبہ اس اصول کی بنیاد پر درست ہے جو ہر سال ماحولیاتی کی عالمی کانفرنسوں میں دہرایا جاتا ہے ‘ کہ ترقی یافتہ صنعتی ملک جو عالمی حدت میں اضافے کے اصل ذمہ دار ہیں‘ متاثرہ ممالک کی مدد کے لیے آگے بڑھیں‘ مگر اس ضمن میں ابھی تک سوائے زبانی جمع خرچ کے کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ پاکستان کو 2022ء کے سیلابوں میں بھی نقصان کے ازالے اور بحالی کی کوششوں کیلئے دنیا سے کوئی بڑا تعاون نہیں مل سکا؛ چنانچہ ضروری ہے کہ دنیا کی امیدوں کے بجائے اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے درست اقدامات کے ذریعے ماحولیاتی آفات کے خطرات سے بچنے کی کوشش کی جائے۔ قدرتی آفات اپنے آپ میں بڑی سبق آموز ہیں‘ اگر ہم سمجھنے کی کوشش کریں تو اس سال کے بہت سے مسائل آنے والے وقتوں میں بچاؤ کی تدابیر سجھاتے ہیں۔ سیلاب دریائی ہوں یا شہری یا بالائی علاقوں میں بادل اور گلیشیر پھٹنے کے واقعات‘یہ انسانی بس سے باہر ہیں ‘ مگر درست اقدامات اور حکمت عملی سے ان کے خطرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسموں کے مزاج کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی صورتحال میں بچاؤ کی یہی ایک کارگر تدبیر ہو سکتی کہ حالات سے ہم آہنگی پیدا کی جائے اور خود کو ان تبدیل شدہ موسموں کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے۔  

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں