اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سیلاب کے ملک گیر اثرات

پنجاب میں تباہی مچاتا سیلاب تیزی سے سندھ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق منگل یا بدھ کو سیلابی ریلا سندھ میں داخل ہو جائے گا جہاں حکومتی اندازے کے مطابق 16لاکھ افراد کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔قدرتی آفات سے نمٹنے والے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کے مطابق سکھربیراج میں اگلے ہفتے آٹھ سے 11لاکھ کیوسک اور کوٹری بیراج میں آٹھ سے10لاکھ کیوسک بہاؤ متوقع ہے۔ جس کے باعث 12 تا 13ستمبر تک دریائے سندھ کے نشیبی علاقوں میں شدید اونچے درجے کا سیلاب متوقع ہے۔ ملک عزیز شمالاً جنوباً سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد پر ہے۔ گزشتہ سیلابوں میں دریائے سندھ کا بڑا کردار رہا ہے مگر اس سال مشرقی دریاؤں کی طغیانی سنگین صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق پنجاب کے تینوں مشرقی دریا بدستور سیلاب کی زد میں ہیں ۔دریائے ستلج میں گنڈا پور کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے ‘ جہاں پانی کا بہاؤ پچھلی تین دہائیوں کی بلند ترین سطح ہے۔سیلاب کے ساتھ ساتھ بارشوں کے نئے سلسلے مشکلات میں اضافی کیے ہوئے ہیں۔ دریاؤں کے کیچمنٹ ایریاز میں بھی مسلسل بارشوں کی اطلاعات ہیں جبکہ بھارت کی جانب سے ڈیموں سے بھی پانی کے اخراج کا سلسلہ جاری ہیں؛ چنانچہ راوی اور ستلج میں سیلاب کی سطح کم ہونے کو نہیں آرہی۔ ان سال تباہ کن سیلابوں ‘ مسلسل بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ کے واقعات نے ثابت کیا ہے کہ ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے ہاتھوں کس بھیانک خطرے میں ہیں۔ مگر اس وقت جس صورتحال کا سامنا ہے اسے صرف تمہیدقرار دیا جارہا ہے کیونکہ آنے والے برسوں میں اس سے زیادہ بارشوں کے خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔ بڑھتی ہوئی عالمی حدت سے یہ بعید نہیں۔ عالمی حدت میں اضافہ سمندروں کے درجہ حرات میں اضافے کا سبب بنتا ہے یوں زیادہ بخارات پیدا ہوتے ہیں اور بارشیں معمول سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ ماہرین اس حوالے سے بہت واضح ہیں اور اس سال ملک عزیز میں جس قسم کے حالات کا سامنا ہے یا جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی مون سون کی جو شدت اس سال دیکھنے میں آئی ہے اس کے بعد موسمی تبدیلیوں کے خلاف دفاع کیلئے قومی سطح پر حکمت عملی وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔ اس حوالے سے ماہرین انفرادی سطح پر آرا کا اظہار کر رہے ہیں ‘ مگرضرورت اس امر کی ہے کہ ایک قومی پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے جہاں ماہرین کی تجاویز اور مشاورت کو لے کر قومی پالیسی میں ڈھالا جاسکے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اس قدر شدید ہیں کہ ان سے بچاؤ کے عمل میں مزید لیت و لعل کی گنجائش نہیں ۔ اگرچہ ان دنوں بارشوں اور سیلابوں کا مسئلہ درپیش ہے مگر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات یہیں تک محدود نہیں کیونکہ بارشوں کے معمولات متاثر ہونا بھی اسی صورتحال کے نتائج میں سے ہے۔ ان اثرات سے بچاؤ کے اقدامات قومی بقا کا تقاضا ہیں اور اس سلسلے میں جو کثیر جہتی اقدامات ناگزیر ہیں ان میں جنگلات کی حفاظت‘ آبی ذخائر کی تعمیر اور آبی گزر گاہوں کا تحفظ بنیادی طور پر اہم ہے۔ اس میں دورائے نہیں کہ ہمارے ملک میں آبی ذخائر قومی ضرورت کو پورا کرنے اور دستیاب پانی کو سنبھالنے کے لیے ناکافی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ کہ آج جو پانی ملک میں تباہی مچاتا ہوا بحیرہ عرب کی جانب اپنا راستہ بنا رہا ہے آنے والے چند ماہ میں جب بارشیں نہیں ہو رہی ہوں گی اور دریاؤں میں ریت اڑتی ہو گی تو یہی پانی ہمارے لیے آبِ حیات کے مترادف ہو گا۔ یہ پانی آبی ذخائر کی گنجائش بڑھائے بغیر محفوظ نہیں کیا جا سکتا۔یہ ایک معلوم حقیقت ہے ‘مگر اس جانب ہماری پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔اس رویے اور کارکردگی کو تبدیل کیے بغیر موسمیاتی تبدیلیوں کے بھیانک اثرات سے بچاؤ کی کوششیں ناکافی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں