سمت درست کرنے کی ضرورت!
کراچی میں ’’2030ء کا پاکستان: چیلنجز، امکانات اور نئی راہیں‘‘ کے عنوان سے منعقدہ آگاہی سیشنز میں طلبہ اور بزنس کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ ملک اپنی صلاحیت کے مطابق ترقی نہیں کر رہا‘ چھوٹے صوبے بنانے سے مسائل حل کرنے میں آسانی ہو گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں صرف پانچ کیپٹل شہر ہیں‘ ہم نے ان پانچ بڑے شہروں کے علاوہ کوئی ایسا شہر نہیں بنایا جہاں تمام بنیادی ضروریات اور سہولتیں میسر ہوں‘ پاکستان میں صوبوں کا حجم اتنا بڑا ہے کہ اس کی وجہ سے گورننس کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ملک میں نئی انتظامی تقسیم ہو گی‘ چھوٹے انتظامی یونٹس بنیں گے تو مسائل جلدی حل ہوں گے اور ملک تیزی سے ترقی کرے گا۔ چیئرمین پنجاب گروپ نے جو باتیں کی ہیں‘ پاکستان کے انتظامی وسیاسی حالات ان پر شاہد ہیں۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ صوبوں کے بڑے حجم نے نہ صرف اختیارات اور فیصلہ سازی کی قوت کو ایک جگہ مرتکز کر رکھا ہے بلکہ دور دراز کے علاقوں کو ترقی کے ثمرات تو کجا‘ بنیادی انسانی سہولتوں سے بھی محروم رکھا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنیادی نوعیت کے مسائل بھی حل نہیں ہو پا رہے اور گورننس کا فقدان ایک لاینحل مسئلہ بنتا چلا جا رہا ہے۔ وزارتِ منصوبہ بندی کی ایک حالیہ رپورٹ چیئرمین پنجاب گروپ کے بیانات کی توثیق کرتی ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صرف پانچ شہر؛ کراچی‘ لاہور‘ پشاور‘ ملتان اور اسلام آباد و راولپنڈی قومی جی ڈی پی میں 50 فیصد حصہ ڈال رہے ہیں۔ اگر یہ شہر وقتی نوعیت کے مسائل مثلاً اربن فلڈنگ وغیرہ سے دوچار ہوتے ہیں تو ملکی اقتصادیات کو شدید جھٹکا لگتا ہے۔ ترقی کا یہ نا پائیدار ماڈل ہی ہمارے پائوں کی زنجیر بنا ہوا ہے۔ یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج پاکستان ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں 193ممالک میں 168 ویں نمبر پر ہے‘ قانون کی حکمرانی کے انڈیکس میں 143 ممالک میں 130ویں نمبر پر اور پائیدار ترقی اہداف کے حوالے 167 ممالک میں 140ویں نمبر پر ہے۔
کہنے کو ہم ایک زرعی ملک ہیں مگر گلوبل ہنگر انڈیکس میں 123 ممالک میں پاکستان کا 106واں نمبر ہے۔ غذائیت سے محرومی کے سبب پانچ سال کی عمر تک کے 44 فیصد بچے کمزور ذہنی نشو ونما یعنی سٹنٹنگ گروتھ کا شکار ہیں۔ پانچ سے 16 سال عمر کے دو کروڑ ساٹھ لاکھ (44.5 فیصد) بچے سکولوں سے باہر ہیں اور افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ تعداد ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ اعداد و شمار اس سوال کا جواب فراہم کر دیتے ہیں کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے بڑے چیلنجز کیا ہوں گے۔ خرابیوں کے جو بیج آج ہم بو رہے ہیں‘ کل کو ایک خاردار فصل کی صورت میں ہمارے سامنے آئیں گے۔ نامکمل ذہنی گروتھ اور علم وہنر سے عاری 45 فیصد آبادی کیا ملک کی زمامِ کار سنبھالنے اور مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکتی ہے؟ یہ افراد بذاتِ خود ملک کیلئے ایک بوجھ تصور ہوں گے۔ ہم ایک ایسی راہ پر گامزن ہیں جس کا انجام واضح ہے مگر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے مسائل کا حل بھی نہیں نکل سکتا۔ اس حوالے سے عوام میں بیداری کی لہر اٹھانا ہو گی۔ پاکستان کو انقلاب کی نہیں عوامی شعور کی ضرورت ہے۔
’چیلنجز، امکانات اور نئی راہیں‘ کے نام سے آگاہی مہم میں یہی شعور تقسیم کیا جا رہا ہے کہ کل کی خرابیوں کو ٹھیک کرنے کیلئے پہلا قدم آج اٹھانا ہو گا۔ خرابیوں کا ہمیں علم ہے‘ یہ آگاہی بھی کہ بیشتر مسائل کی جڑ ارتکازِ اختیارات اور وسائل کی عدم تقسیم میں پیوست ہے۔ اگر ان بنیادی خرابیوں کو درست کر لیا جائے تو دیگر بہت سے مسائل کے حل کی راہ بھی نکل سکتی ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پائیدار ریاستی ترقی عوامی مسائل کے حل پر مدار کرتی ہے۔ عوام کے مسائل کو حل کیے بغیر کوئی ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ہمیں اپنے زاویۂ فکر ونظر کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہماری سمت ٹھیک ہو گئی تو منزل کا حصول بھی ممکن ہو جائے گا۔