اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

صنفی تشدد

گزشتہ روز سینیٹ میں خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف بل منظور کیا گیا ہے‘ جو ایک اہم پیشرفت ہے۔ خواتین پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پورے معاشرے کیلئے سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے مطابق پاکستان میں 28فیصد بالغ جبکہ 34فیصد شادی شدہ خواتین کو کسی نہ کسی مرحلے پر جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ سال ملک بھر سے خواتین پر تشدد کے 32 ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ رواں برس کے پہلے چھ ماہ میں صرف پنجاب سے خواتین پر تشدد کے 15 ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ 

اس پس منظر میں سینیٹ کا بل ایک اشارہ ہے کہ کم از کم قانونی سطح پر خواتین کے حقوق کی حفاظت شروع ہو رہی ہے۔ تاہم بل کی منظوری کے بھی حقیقی چیلنج برقرار ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس حوالے سے موجود قوانین کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت‘ متاثرہ خواتین کیلئے تحفظ اور مشاورت کے مراکز اور انصاف کے نظام میں شفافیت اور تیزی جیسے اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ علاوہ ازیں ہر صوبے میں قوانین کی عملداری‘ بچوں اور نوعمروں کے تحفظ کے اقدامات اور معاشرتی سطح پر شعوری مہمات بھی ضروری ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں